غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا، تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
تُندی بادِ مُخالِف سے نہ گھبرا اے عُقاب
یہ تو چلتی ہے تُجھے اُنچا اُڑانے کے لِیے
پھُول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جِگر
مردِناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
ڈوبنا پڑتا ہے اٌبھرنے سے پہلے
غروب ہونے کا مطلب زوال نہیں ہوتا
محنت اتنی خاموشی سے کرو
کہ تٌمھاری کامیابی شور مچا دے
جب چل پڑے ہو سفر کو تو پھر حوصلہ رکھو
صحرا کہیں ، کہیں پہ سمندر بھی آئیں گے
نامی کوئ بغیر مٌشقت نہیں ہٌوا
سو بار عقیق کٹا تب نگیں ہٌوا
منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر
مل جائے تجھ کو دریا تو سمندر تلاش کر
طوفانوں سے آنکھ ملاو، سیلابوں پر وار کرو
ملاحوں کے چکر چھوڑو، تیر کے دریا پار کرو
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مَر جاوں گا
میں تو دریا ہوں ، سمندر میں اُتر جاوں گا
ڈوبنا پڑتا ہے اٌبھرنے سے پہلے
غروب ہونے کا مطلب زوال نہیں ہوتا
زندگی کی یہی ریت ہے
ہار کے بعد ہی جیت ہے
شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم
آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے
جو یقین کی راہ میں چل پڑے
انہیں منزلوں نے پناہ دی
شاخیں رہیں تو پھول بھی پتے بھی آئیں گے
یہ دن اگر برے ہیں تو اچھے بھی آئیں گے
جب چل پڑے ہو سفر کو تو پھر حوصلہ رکھو
صحرا کہیں، کہیں پہ سمندر بھی آئیں گے
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
کھول آنکھ ، زمیں دیکھ،فلک دیکھ، فِضا دیکھ
مشرق سے نِکلتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
ملے گا منزلِ مقصود کا اُسی کو سُراغ
اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ
مٹا دے اپنی ہستی کو ، اگر کُچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مِل کر گُلِ گُلزار ہوتا ہے
وقت سے پہلے حادثوں سے لڑا ہوں
میں اپنی عُمر سے کئی سال بڑا ہوں
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
اُمیدیں یوں نہ توڑو تُم، کہ یہ قانون ہے ربّ کا
سَحر لازم ہے گویا شب میں کِتنی ہی طوالت ہو
کشتی بھی نہیں بدلی دریا بھی نہیں بدلہ
اور ڈوبنے والوں کا جذبہ بھی نہیں بدلہ ہے شوق سفر ایسا اک عرصہ سے یارو منزل بھی نہیں پائی رستہ بھی نہیں بدلہ
خواہش سے نہیں گِرتے پھل جھولی میں
وقت کی شاخ کو میرے دوست ہلانا ہو گا کچھ نہیں ہو گا اندھیروں کو بُرا کہنے سے اپنے حِصّے کا دِیا خود ہی جلانا ہو گا
نہ منہ چھپا کے جئے ہم نہ سر جھکا کے جئے
ستم گروں کی نظر سے نظر ملا کے جئے اب ایک رات اگر کم جئے تو کم ہی سہی یہی بہت ہے کہ ہم مشعلیں جلا کے جیئے
ہم کو مٹاسکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں
بے فائدہ الم نہیں، بیکار غم نہیں
توفیق دے خدا تو یہ نعمت بھی کم نہیں
میری زباں پہ شکوہٴ اہل ستم نہیں
مجھ کو جگادیا، یہی احسان کم نہیں
یا رب! ہجوم درد کو دے اور وسعتیں
دامن تو کیا، ابھی مِری آنکھیں بھی نم نہیں
زاہد! کچھ اور ہو نہ ہو میخانہ میں، مگر
کیا کم یہ ہے، کہ شکوہٴ دیروحرم نہیں
مرگِ جگر پہ کیوں تِری آنکھیں ہیں اشک ریز
اک سانحہ سہی، مگر اتنا اہم نہیں
اگر پانی ہے منزل توہ اپنا رہنما خود بنو
وہ اکثر بھٹک جاتے ہے جنہیں سہارا مل جاتا ہے
خدا توفیق دیتا ہے انہیں جو یے سمجھتے ہے
کے خود اپنے ہی ہاتھوں سے بنا کرتی ہے تقدیریں
انہی غم کی گھٹاؤں سے خوشی کا چاند نکلےگا
اندھیری رات کے پردوں میں دن کی روشنی بھی ہے
راستے کہاں ختم ہوتے ہے زندگی کے سفر میں
منزل توہ وہی ہے جہاں خواہشیں تھم جائے
یقین ہو توہ کوئی راستہ نکل تا ہے
ہوا کی اوٹ بھی لیکر چراگ جلتا ہے
ہزار برق گرے لاکھ آندھیاں اٹھے
وہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہے
وقت کی گردشوں کا غم نہ کرو
حوصلے مشکلوں میں پلتے ہے
خود کو یوں کھوکر زندگی کو مایوس نہ کر
منزلیں چارو طرف ہے راستوں کی تلاش کر
لکیریں اپنے ہاتھوں کی بنانا ہمکو آتا ہے
وہ کوئی اور ہونگے اپنی قسمت پے جو روتے ہے
دعا کرو کے سلامت رہے میری ہمت یے ایک چراگ کئی آندھیوں پے بھاری ہے
اپنے حوصلوں پر جو اعتبار کرتے ہے انہیں
منزلیں خود پتے بتاتی ہے راستے انتظار کرتے ہے
زندگی نے سب کچھ لیکر ایک یہی بات سکھائی ہے
خالی جیبوں میں اکثر حوصلے کھنک تے ہے
یے آسمان بھی اتر آئےگا زمین پر
بس ارادوں میں جیت کی ہنکار ہونی چاہیے
مشکلیں اپنا حل ساتھ لے کر آتی ہیں
بس بندے کو خدا پر بھروسہ ہونا چاہیے
رشتوں کی قدر ان کی زندگی میں کریں
ورنہ تصویریں کہاں ان کی کمی کو پورا کر سکتی ہیں
جتنی ذہانت بات کہنے کیلئے
درکار ہوتی ہے اس سے دوگنی ذہانت دوسرے شخص کی بات سُننے اور سمجھنے کیلئے درکار ہوتی ہے
دوسرو ں کو دیکھنے کی بجائے
آپ خود پر اتنا کام کریں کہ دوسرے آپ کو دیکھیں
کامیاب انسان وہی ہے جیسے
ٹوٹے کو بنانا اور روٹھے کو منانا آتا ہے
ہواؤں سے کہہ دو اپنی اوکات میں رہے
ہم پروں سے نہیں حوصلوں سے اڑتے ہے
خود پر بھروسہ کرنے کا ہنر سیکھ لو
سہارے کتنے بھی سچے ہو ایک دن ساتھ چھوڑ ہی جاتے ہے
کوشش بھی کر امید بھی رکھ راستہ بھی چن
پھر اسکے بعد تھوڑا سا مقدر تلاش کر
سمندر میں اتر لیکن ابھرنے کی بھی سوچ
ڈوبنے سے پہلے گہرائی کا اندازہ لگا
مت بیٹھ آشیاں میں پروں کو سمیٹ کر
کر حوصلہ کھلی فضاؤں میں اڑان کا
ساحل کے سکون سے کسے انکار ہے لیکن
طوفان سے لڑنے میں مزہ اور ہی کچھ ہے
چلے چلئے کی چلنا ہی دلیل کامرانی ہے
جو تھک کر بیٹھ جاتے ہے وہ منزل پا نہیں سکتے
گلامی میں نہ کام آتی ہے شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو خود پر یقین توہ کٹ جاتی ہے زنجیریں
حوصلے بھی کسی حکیم سے کم نہیں ہوتے
ہر تکلیف میں طاقت کی دوا دیتے ہے
تو رکھ یقین بس اپنے ارادوں پر
تیری ہار تیرے حوصلوں سے توہ بڑی نہیں ہوگی
لوگوں کا بھلا ضرور کریں
لیکن ان سے یہ اُمید نہ رکھیں کہ ضرورت پڑنے پر وہ بھی آپ کا بھلا کریں گے
دُنیا چھوڑ کر اپنے مقصد کے پیچھے
بھاگتے رہو لوگوں کا صرف وقت آتا ہے تمہارا دور آئے گا
کوئی بھی بچانے والا نہیں آپ کو
یہ زندگی ہے میرے دوست یہاں گرنا بھی آپ کو خود ہے اور اُٹھنا بھی خود ہے
زندگی میں ختم ہونے جیسا کچھ بھی نہیں ہوتا
ہمیشہ ایک نئی شروعات آپ کا انتظار کرتی ہے
سکون چاہتے ہو تو
مکانوں پر نہیں انسانوں پر خرچ کروو
جنگ میں کاغذی افرات سے کیا ہوتا ہے
ہمتیں لڑتی ہے تعداد سے کیا ہوتا ہے
سبب تلاش کرو اپنے ہار جانے کا
کسی کی جیت پر رونے سے کچھ نہیں ہوگا
جنکے ہوٹوں پے ہنسی پاؤں میں چھالے ہونگے
وہی لوگ اپنی منزل کو پانے والے ہونگے
میرے ہاتھوں کی لکیروں کے اضافے ہے گواہ
مےنے پتھر کی طرح خود کو تراشا ہے بہت
زندہ رہنا ہے توہ حالات سے ڈرنا کیسا
جنگ لازم ہو توہ لشکر نہیں دیکھے جاتے
مشکلیں ضرور ہے مگر ٹھہرا نہیں ہوں میں
منزل سے ذرا کہہ دو ابھی پہنچا نہیں ہوں میں
ہر میل کے پتھر پر لکھ دو یے عبارت
منزل نہیں ملتی ناکام ارادوں سے
نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشین سے نکلےگا
ہمارے پانو کا کانٹا ہمی سے نکلےگا
منزل ملے نہ ملے یے توہ مقدر کی بات ہے
ہم کوشش بھی نہ کریں یے توہ گلت بات ہے
ابھی مٹھی نہیں کھولی ہے مےنے آسماں سنلے
تیرا بس وقت آیا ہے میرا توہ دور آئے گا
زندگی کی مدت بہت کم ہے
اور ہمیشہ عذاب اور راحت کا فیصلہ اسی میں کرو
لوگ ڈھونڈتے رہ گئے کامیابی کو
موذن ساری عمر کہتا رہا حی علی الفلاح”
بدنام زمانہ ہم پر کچھ بھی الزام لگائے
ہم تو جیتے ہیں آخرت میں کامیاب ہونے کیلئے”
اُن لوگوں کے لیے کامیاب بنو
جو تمہیں ناکام دیکھنا چاہتے ہیں”
جن کا بھروسہ اللہ ہو
ان کی منزل کامیابی ہے
کامیابی پر مٹھائی مانگنے والے
تکلیفوں میں نظر نہیں آتے
وہ سب لوٹ آئیں گے مرشد
تم ایک بار کامیاب تو ہو جاؤ
محنت اتنی خاموشی سے کرو کہ
تمہاری کامیابی شور مچادے
“وقت آپ کا انتظار نہیں کرتا۔۔۔۔>
آپ کو وقت کے ساتھ چلنا ہوگا تب آپ کامیاب ہونگے”
زند گی کی یھی ریت ہے
ہار کے بعد ہی جیت ہے
کامیابی ہاتھوں کی لیکروں میں نہیں
بلکہ ماتھے کے پسینے میں ہوتی ہے
...کاش کے تم موت ہوتے یقین تو ہوتا ...اک دن آؤ گے ضرور ...افسو س ہے کہ تم زندگی ہو
...اور اس بات کا غم ہے کہ ...اک دن چھوڑکے جاؤ گے ضرور
اگر آپ چاہتے ہو کہ آپ کے خواب سچ ہوں
.تو پہلے آپ کو جاگنا ہوگا
کھول آنکھ ، زمیں دیکھ،فلک دیکھ، فِضا دیکھ
مشرق سے نِکلتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
اُس قوم کو شمشیر کی حاجت نہی رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورتِ فولاد
ابھی مٹھی نہیں کھولی ہے مےنے آسماں سنلے
تیرا بس وقت آیا ہے میرا توہ دور آئے گا
بڑھ کے طوفان کو آگوش میں لے لے اپنی
ڈوبنے والے تیرے ہاتھ سے ساحل توہ گیا
یے کہہ کے دل نے میرے حوصلے بڑھائے ہے
غموں کی دھوپ کے آگے خوشی کے سائے ہے
کہتی ہے دنیا بس اب ہار مان جا
امید پکارتی ہے بس ایک بار اور سہی
چراغوں تک کو جہاں میسر نہیں روشنی
لو امید کی ہمنے وہاں بھی جلائے رکھی
اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی زندگی کے امتحاں اور بھی ہیں
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سُلطانی کے گُنبد پر
تُو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پُر دم ہے اگر تُو ، تو نہیں خطرہِ افتاد
دُنیا چھوڑ کر اپنے مقصد کے پیچھے
بھاگتے رہو لوگوں کا صرف وقت آتا ہے تمہارا دور آئے گا
کوئی بھی بچانے والا نہیں آپ کو
یہ زندگی ہے میرے دوست یہاں گرنا بھی آپ کو خود ہے اور اُٹھنا بھی خود ہے
ملے گا منزلِ مقصود کا اُسی کو سُراغ
اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ
وقت سے پہلے حادثوں سے لڑا ہوں
میں اپنی عُمر سے کئی سال بڑا ہوں
شاخیں اگر گِر رہی ہیں، تو پتے بھی آئیں گے
یہ دِن اگر بُرے ہیں تو اچھے بھی آئیں گے
چین سے رہنے کا ہمکو مشورہ مت دیجئے
اب مزہ دینے لگی ہے زندگی کی مشکلیں
ہزاروں الجھنیں راہوں میں اور کوششیں بےحساب
اسی کا نام ہے زندگی چلتے رہیے جناب
مسکراتے رہوگے توہ دنیا آپکے کدموں میں ہوگی
ورنہ آنسوؤں کو توہ آنکھیں بھی پناہ نہیں دیتی
مہانتا کبھی نہ گرنے میں نہیں
بلکی ہر بار گرکر اٹھ جانے میں ہے
جہاں ہمت ختم ہوتی ہے
وہی ہار کی شروعات ہوتی ہے
جیت حاصل کرنی ہو توہ قابِ لِیت بڑھاؤ
قسمت کی روٹی توہ کتوں کو بھی ملا کرتی ہے
خود کے سپنوں کے پیچھے اتنا بھاگو
کے ایک دن تمھیں پانا لوگوں کے لئے سپنا بن جائے
جن کو دولت حقیر لگتی ہے
اف وہ کتنے امیر ہوتے ہیں
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
زندگی کی یہی ریت ہے
ہار کے بعد ہی جیت ہے
ندامت کے چراغوں سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
اندھیری رات کے آنسو خدا سے بات کرتے ہیں
طوفانوں سے آنکھ ملاو، سیلابوں پر وار کرو
ملاحوں کے چکر چھوڑو، تیر کے دریا پار کرو
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مَر جاوں گا
میں تو دریا ہوں ، سمندر میں اُتر جاوں گا
ڈوبنا پڑتا ہے اٌبھرنے سے پہلے
غروب ہونے کا مطلب زوال نہیں ہوتا
مٹا دے اپنی ہستی کو ، اگر کُچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مِل کر گُلِ گُلزار ہوتا ہے
مُقدر جن کے اونچے اور اعلی بخت ہوتے ہیں
زندگی میں اُنہی کے امتحاں بھی سخت ہوتے ہیں
زندگی کی بھی یہی ریت ہے
ہار کے بعد ہی جیت ہے
اے طائرِ لاہوتی، اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
طوفانوں سے آنکھ ملاو، سیلابوں پر وار کرو
ملاحوں کے چکر چھوڑو، تیر کے دریا پار کرو
زندگی کی یہی ریت ہے
ہار کے بعد ہی جیت ہے
شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم
آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے
جو یقین کی راہ میں چل پڑے
انہیں منزلوں نے پناہ دی
شاخیں رہیں تو پھول بھی پتے بھی آئیں گے
یہ دن اگر برے ہیں تو اچھے بھی آئیں گے
جب چل پڑے ہو سفر کو تو پھر حوصلہ رکھو
صحرا کہیں، کہیں پہ سمندر بھی آئیں گے
سفر میں مشکلیں آئیں ، تو ہمت اور بڑھتی ہے
کوئی جب راستہ روکے تو ، جُرات اور بڑھتی ہے
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ، نئے صبح و شام پیدا کر
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
لہروں سے ڈر کر نوکا پار نہیں ہوتی
کوشش کرنے والوں کی ہار نہیں ہوتی
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مَر جاوں گا
میں تو دریا ہوں ، سمندر میں اُتر جاوں گا
وقت کی گردشوں کا غم نہ کرو
حوصلے مُشکلوں میں پلتے ہیں
اُمیدیں یوں نہ توڑو تُم، کہ یہ قانون ہے ربّ کا
سَحر لازم ہے گویا شب میں کِتنی ہی طوالت ہو
خواہش سے نہیں گِرتے پھل جھولی میں
وقت کی شاخ کو میرے دوست ہلانا ہو گا کچھ نہیں ہو گا اندھیروں کو بُرا کہنے سے اپنے حِصّے کا دِیا خود ہی جلانا ہو گا
منزلیں چاہے کِتنی ہی اونچی کیوں نہ ہو
راستے ہمیشہ پیروں کے نیچے ہوتے ہیں۔
جن میں تنہا چلنے کے حوصلے ہوتے ہیں
ایک دِن اُن ہی کے پیچھے قافلے ہوتے ہیں۔
منزل تو مِلے گی بھٹک کر ہی سہی
گمراہ تو وہ ہیں جو گھر سے نِکلے ہی نہیں
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
کھول آنکھ ، زمیں دیکھ،فلک دیکھ، فِضا دیکھ
مشرق سے نِکلتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
ملے گا منزلِ مقصود کا اُسی کو سُراغ
اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ
مٹا دے اپنی ہستی کو ، اگر کُچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مِل کر گُلِ گُلزار ہوتا ہے
وقت سے پہلے حادثوں سے لڑا ہوں
میں اپنی عُمر سے کئی سال بڑا ہوں
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
اُمیدیں یوں نہ توڑو تُم، کہ یہ قانون ہے ربّ کا
سَحر لازم ہے گویا شب میں کِتنی ہی طوالت ہو
ہم کو مٹاسکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں
بے فائدہ الم نہیں، بیکار غم نہیں
توفیق دے خدا تو یہ نعمت بھی کم نہیں
میری زباں پہ شکوہٴ اہل ستم نہیں
مجھ کو جگادیا، یہی احسان کم نہیں
یا رب! ہجوم درد کو دے اور وسعتیں
دامن تو کیا، ابھی مِری آنکھیں بھی نم نہیں
زاہد! کچھ اور ہو نہ ہو میخانہ میں، مگر
کیا کم یہ ہے، کہ شکوہٴ دیروحرم نہیں
مرگِ جگر پہ کیوں تِری آنکھیں ہیں اشک ریز
اک سانحہ سہی، مگر اتنا اہم نہیں