غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا، تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

مرزا غالب

تُندی بادِ مُخالِف سے نہ گھبرا اے عُقاب
یہ تو چلتی ہے تُجھے اُنچا اُڑانے کے لِیے

مرزا غالب

پھُول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جِگر
مردِناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر

مرزا غالب

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

مرزا غالب

ڈوبنا پڑتا ہے اٌبھرنے سے پہلے
غروب ہونے کا مطلب زوال نہیں ہوتا

مرزا غالب

محنت اتنی خاموشی سے کرو
کہ تٌمھاری کامیابی شور مچا دے

مرزا غالب

جب چل پڑے ہو سفر کو تو پھر حوصلہ رکھو
صحرا کہیں ، کہیں پہ سمندر بھی آئیں گے

مرزا غالب

نامی کوئ بغیر مٌشقت نہیں ہٌوا
سو بار عقیق کٹا تب نگیں ہٌوا

مرزا غالب

منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر
مل جائے تجھ کو دریا تو سمندر تلاش کر

مرزا غالب

طوفانوں سے آنکھ ملاو، سیلابوں پر وار کرو
ملاحوں کے چکر چھوڑو، تیر کے دریا پار کرو

مرزا غالب

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مَر جاوں گا
میں تو دریا ہوں ، سمندر میں اُتر جاوں گا

مرزا غالب

ڈوبنا پڑتا ہے اٌبھرنے سے پہلے
غروب ہونے کا مطلب زوال نہیں ہوتا

مرزا غالب

زندگی کی یہی ریت ہے
ہار کے بعد ہی جیت ہے

مرزا غالب

شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم
آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے

مرزا غالب

جو یقین کی راہ میں چل پڑے
انہیں منزلوں نے پناہ دی

مرزا غالب

شاخیں رہیں تو پھول بھی پتے بھی آئیں گے
یہ دن اگر برے ہیں تو اچھے بھی آئیں گے

مرزا غالب

جب چل پڑے ہو سفر کو تو پھر حوصلہ رکھو
صحرا کہیں، کہیں پہ سمندر بھی آئیں گے

مرزا غالب

کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں

مرزا غالب

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

مرزا غالب

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

مرزا غالب

کھول آنکھ ، زمیں دیکھ،فلک دیکھ، فِضا دیکھ
مشرق سے نِکلتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ

مرزا غالب

وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی

مرزا غالب

ملے گا منزلِ مقصود کا اُسی کو سُراغ
اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ

مرزا غالب

مٹا دے اپنی ہستی کو ، اگر کُچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مِل کر گُلِ گُلزار ہوتا ہے

مرزا غالب

وقت سے پہلے حادثوں سے لڑا ہوں
میں اپنی عُمر سے کئی سال بڑا ہوں

مرزا غالب

رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں

مرزا غالب

اُمیدیں یوں نہ توڑو تُم، کہ یہ قانون ہے ربّ کا
سَحر لازم ہے گویا شب میں کِتنی ہی طوالت ہو

مرزا غالب

کشتی بھی نہیں بدلی دریا بھی نہیں بدلہ
اور ڈوبنے والوں کا جذبہ بھی نہیں بدلہ ہے شوق سفر ایسا اک عرصہ سے یارو منزل بھی نہیں پائی رستہ بھی نہیں بدلہ

مرزا غالب

خواہش سے نہیں گِرتے پھل جھولی میں
وقت کی شاخ کو میرے دوست ہلانا ہو گا کچھ نہیں ہو گا اندھیروں کو بُرا کہنے سے اپنے حِصّے کا دِیا خود ہی جلانا ہو گا

مرزا غالب

نہ منہ چھپا کے جئے ہم نہ سر جھکا کے جئے
ستم گروں کی نظر سے نظر ملا کے جئے اب ایک رات اگر کم جئے تو کم ہی سہی یہی بہت ہے کہ ہم مشعلیں جلا کے جیئے

مرزا غالب

ہم کو مٹاسکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں

مرزا غالب

بے فائدہ الم نہیں، بیکار غم نہیں ​
توفیق دے خدا تو یہ نعمت بھی کم نہیں ​

مرزا غالب

میری زباں پہ شکوہٴ اہل ستم نہیں ​
مجھ کو جگادیا، یہی احسان کم نہیں

مرزا غالب

​ یا رب! ہجوم درد کو دے اور وسعتیں ​
دامن تو کیا، ابھی مِری آنکھیں بھی نم نہیں ​

مرزا غالب

زاہد! کچھ اور ہو نہ ہو میخانہ میں، مگر ​
کیا کم یہ ہے، کہ شکوہٴ دیروحرم نہیں

مرزا غالب

​ مرگِ جگر پہ کیوں تِری آنکھیں ہیں اشک ریز
​ اک سانحہ سہی، مگر اتنا اہم نہیں

مرزا غالب

اگر پانی ہے منزل توہ اپنا رہنما خود بنو
وہ اکثر بھٹک جاتے ہے جنہیں سہارا مل جاتا ہے

مرزا غالب

خدا توفیق دیتا ہے انہیں جو یے سمجھتے ہے
کے خود اپنے ہی ہاتھوں سے بنا کرتی ہے تقدیریں

مرزا غالب

انہی غم کی گھٹاؤں سے خوشی کا چاند نکلےگا
اندھیری رات کے پردوں میں دن کی روشنی بھی ہے

مرزا غالب

راستے کہاں ختم ہوتے ہے زندگی کے سفر میں
منزل توہ وہی ہے جہاں خواہشیں تھم جائے

مرزا غالب

یقین ہو توہ کوئی راستہ نکل تا ہے
ہوا کی اوٹ بھی لیکر چراگ جلتا ہے

مرزا غالب

ہزار برق گرے لاکھ آندھیاں اٹھے
وہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہے

مرزا غالب

وقت کی گردشوں کا غم نہ کرو
حوصلے مشکلوں میں پلتے ہے

مرزا غالب

خود کو یوں کھوکر زندگی کو مایوس نہ کر
منزلیں چارو طرف ہے راستوں کی تلاش کر

مرزا غالب

لکیریں اپنے ہاتھوں کی بنانا ہمکو آتا ہے
وہ کوئی اور ہونگے اپنی قسمت پے جو روتے ہے

مرزا غالب

دعا کرو کے سلامت رہے میری ہمت یے ایک چراگ کئی آندھیوں پے بھاری ہے

مرزا غالب

اپنے حوصلوں پر جو اعتبار کرتے ہے انہیں
منزلیں خود پتے بتاتی ہے راستے انتظار کرتے ہے

مرزا غالب

زندگی نے سب کچھ لیکر ایک یہی بات سکھائی ہے
خالی جیبوں میں اکثر حوصلے کھنک تے ہے

مرزا غالب

یے آسمان بھی اتر آئےگا زمین پر
بس ارادوں میں جیت کی ہنکار ہونی چاہیے

مرزا غالب

مشکلیں اپنا حل ساتھ لے کر آتی ہیں
بس بندے کو خدا پر بھروسہ ہونا چاہیے

مرزا غالب

رشتوں کی قدر ان کی زندگی میں کریں
ورنہ تصویریں کہاں ان کی کمی کو پورا کر سکتی ہیں

مرزا غالب

جتنی ذہانت بات کہنے کیلئے
درکار ہوتی ہے اس سے دوگنی ذہانت دوسرے شخص کی بات سُننے اور سمجھنے کیلئے درکار ہوتی ہے

مرزا غالب

دوسرو ں کو دیکھنے کی بجائے
آپ خود پر اتنا کام کریں کہ دوسرے آپ کو دیکھیں

مرزا غالب

کامیاب انسان وہی ہے جیسے
ٹوٹے کو بنانا اور روٹھے کو منانا آتا ہے

مرزا غالب

ہواؤں سے کہہ دو اپنی اوکات میں رہے
ہم پروں سے نہیں حوصلوں سے اڑتے ہے

مرزا غالب

خود پر بھروسہ کرنے کا ہنر سیکھ لو
سہارے کتنے بھی سچے ہو ایک دن ساتھ چھوڑ ہی جاتے ہے

مرزا غالب

کوشش بھی کر امید بھی رکھ راستہ بھی چن
پھر اسکے بعد تھوڑا سا مقدر تلاش کر

مرزا غالب

سمندر میں اتر لیکن ابھرنے کی بھی سوچ
ڈوبنے سے پہلے گہرائی کا اندازہ لگا

مرزا غالب

مت بیٹھ آشیاں میں پروں کو سمیٹ کر
کر حوصلہ کھلی فضاؤں میں اڑان کا

مرزا غالب

ساحل کے سکون سے کسے انکار ہے لیکن
طوفان سے لڑنے میں مزہ اور ہی کچھ ہے

مرزا غالب

چلے چلئے کی چلنا ہی دلیل کامرانی ہے
جو تھک کر بیٹھ جاتے ہے وہ منزل پا نہیں سکتے

مرزا غالب

گلامی میں نہ کام آتی ہے شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو خود پر یقین توہ کٹ جاتی ہے زنجیریں

مرزا غالب

حوصلے بھی کسی حکیم سے کم نہیں ہوتے
ہر تکلیف میں طاقت کی دوا دیتے ہے

مرزا غالب

تو رکھ یقین بس اپنے ارادوں پر
تیری ہار تیرے حوصلوں سے توہ بڑی نہیں ہوگی

مرزا غالب

لوگوں کا بھلا ضرور کریں
لیکن ان سے یہ اُمید نہ رکھیں کہ ضرورت پڑنے پر وہ بھی آپ کا بھلا کریں گے

مرزا غالب

دُنیا چھوڑ کر اپنے مقصد کے پیچھے
بھاگتے رہو لوگوں کا صرف وقت آتا ہے تمہارا دور آئے گا

مرزا غالب

کوئی بھی بچانے والا نہیں آپ کو
یہ زندگی ہے میرے دوست یہاں گرنا بھی آپ کو خود ہے اور اُٹھنا بھی خود ہے

مرزا غالب

زندگی میں ختم ہونے جیسا کچھ بھی نہیں ہوتا
ہمیشہ ایک نئی شروعات آپ کا انتظار کرتی ہے

مرزا غالب

سکون چاہتے ہو تو
مکانوں پر نہیں انسانوں پر خرچ کروو

مرزا غالب

جنگ میں کاغذی افرات سے کیا ہوتا ہے
ہمتیں لڑتی ہے تعداد سے کیا ہوتا ہے

مرزا غالب

سبب تلاش کرو اپنے ہار جانے کا
کسی کی جیت پر رونے سے کچھ نہیں ہوگا

مرزا غالب

جنکے ہوٹوں پے ہنسی پاؤں میں چھالے ہونگے
وہی لوگ اپنی منزل کو پانے والے ہونگے

مرزا غالب

میرے ہاتھوں کی لکیروں کے اضافے ہے گواہ
مےنے پتھر کی طرح خود کو تراشا ہے بہت

مرزا غالب

زندہ رہنا ہے توہ حالات سے ڈرنا کیسا
جنگ لازم ہو توہ لشکر نہیں دیکھے جاتے

مرزا غالب

مشکلیں ضرور ہے مگر ٹھہرا نہیں ہوں میں
منزل سے ذرا کہہ دو ابھی پہنچا نہیں ہوں میں

مرزا غالب

ہر میل کے پتھر پر لکھ دو یے عبارت
منزل نہیں ملتی ناکام ارادوں سے

مرزا غالب

نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشین سے نکلےگا
ہمارے پانو کا کانٹا ہمی سے نکلےگا

مرزا غالب

منزل ملے نہ ملے یے توہ مقدر کی بات ہے
ہم کوشش بھی نہ کریں یے توہ گلت بات ہے

مرزا غالب

ابھی مٹھی نہیں کھولی ہے مےنے آسماں سنلے
تیرا بس وقت آیا ہے میرا توہ دور آئے گا

مرزا غالب

زندگی کی مدت بہت کم ہے
اور ہمیشہ عذاب اور راحت کا فیصلہ اسی میں کرو

مرزا غالب

لوگ ڈھونڈتے رہ گئے کامیابی کو
موذن ساری عمر کہتا رہا حی علی الفلاح”

مرزا غالب

بدنام زمانہ ہم پر کچھ بھی الزام لگائے
ہم تو جیتے ہیں آخرت میں کامیاب ہونے کیلئے”

مرزا غالب

اُن لوگوں کے لیے کامیاب بنو
جو تمہیں ناکام دیکھنا چاہتے ہیں”

مرزا غالب

جن کا بھروسہ اللہ ہو
ان کی منزل کامیابی ہے

مرزا غالب

کامیابی پر مٹھائی مانگنے والے
تکلیفوں میں نظر نہیں آتے

مرزا غالب

وہ سب لوٹ آئیں گے مرشد
تم ایک بار کامیاب تو ہو جاؤ

مرزا غالب

محنت اتنی خاموشی سے کرو کہ
تمہاری کامیابی شور مچادے

مرزا غالب

“وقت آپ کا انتظار نہیں کرتا۔۔۔۔>
آپ کو وقت کے ساتھ چلنا ہوگا تب آپ کامیاب ہونگے”

مرزا غالب

زند گی کی یھی ریت ہے
ہار کے بعد ہی جیت ہے

مرزا غالب

کامیابی ہاتھوں کی لیکروں میں نہیں
بلکہ ماتھے کے پسینے میں ہوتی ہے

مرزا غالب

...کاش کے تم موت ہوتے یقین تو ہوتا ...اک دن آؤ گے ضرور ...افسو س ہے کہ تم زندگی ہو
...اور اس بات کا غم ہے کہ ...اک دن چھوڑکے جاؤ گے ضرور

مرزا غالب

اگر آپ چاہتے ہو کہ آپ کے خواب سچ ہوں
.تو پہلے آپ کو جاگنا ہوگا

مرزا غالب

کھول آنکھ ، زمیں دیکھ،فلک دیکھ، فِضا دیکھ
مشرق سے نِکلتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ

مرزا غالب

اُس قوم کو شمشیر کی حاجت نہی رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورتِ فولاد

مرزا غالب

ابھی مٹھی نہیں کھولی ہے مےنے آسماں سنلے
تیرا بس وقت آیا ہے میرا توہ دور آئے گا

مرزا غالب

بڑھ کے طوفان کو آگوش میں لے لے اپنی
ڈوبنے والے تیرے ہاتھ سے ساحل توہ گیا

مرزا غالب

یے کہہ کے دل نے میرے حوصلے بڑھائے ہے
غموں کی دھوپ کے آگے خوشی کے سائے ہے

مرزا غالب

کہتی ہے دنیا بس اب ہار مان جا
امید پکارتی ہے بس ایک بار اور سہی

مرزا غالب

چراغوں تک کو جہاں میسر نہیں روشنی
لو امید کی ہمنے وہاں بھی جلائے رکھی

مرزا غالب

اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

مرزا غالب

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

مرزا غالب

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی زندگی کے امتحاں اور بھی ہیں

مرزا غالب

نہیں تیرا نشیمن قصرِ سُلطانی کے گُنبد پر
تُو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر

مرزا غالب

شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پُر دم ہے اگر تُو ، تو نہیں خطرہِ افتاد

مرزا غالب

دُنیا چھوڑ کر اپنے مقصد کے پیچھے
بھاگتے رہو لوگوں کا صرف وقت آتا ہے تمہارا دور آئے گا

مرزا غالب

کوئی بھی بچانے والا نہیں آپ کو
یہ زندگی ہے میرے دوست یہاں گرنا بھی آپ کو خود ہے اور اُٹھنا بھی خود ہے

مرزا غالب

ملے گا منزلِ مقصود کا اُسی کو سُراغ
اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ

مرزا غالب

وقت سے پہلے حادثوں سے لڑا ہوں
میں اپنی عُمر سے کئی سال بڑا ہوں

مرزا غالب

شاخیں اگر گِر رہی ہیں، تو پتے بھی آئیں گے
یہ دِن اگر بُرے ہیں تو اچھے بھی آئیں گے

مرزا غالب

چین سے رہنے کا ہمکو مشورہ مت دیجئے
اب مزہ دینے لگی ہے زندگی کی مشکلیں

مرزا غالب

ہزاروں الجھنیں راہوں میں اور کوششیں بےحساب
اسی کا نام ہے زندگی چلتے رہیے جناب

مرزا غالب

مسکراتے رہوگے توہ دنیا آپکے کدموں میں ہوگی
ورنہ آنسوؤں کو توہ آنکھیں بھی پناہ نہیں دیتی

مرزا غالب

مہانتا کبھی نہ گرنے میں نہیں
بلکی ہر بار گرکر اٹھ جانے میں ہے

مرزا غالب

جہاں ہمت ختم ہوتی ہے
وہی ہار کی شروعات ہوتی ہے

مرزا غالب

جیت حاصل کرنی ہو توہ قابِ لِیت بڑھاؤ
قسمت کی روٹی توہ کتوں کو بھی ملا کرتی ہے

مرزا غالب

خود کے سپنوں کے پیچھے اتنا بھاگو
کے ایک دن تمھیں پانا لوگوں کے لئے سپنا بن جائے

مرزا غالب

جن کو دولت حقیر لگتی ہے
اف وہ کتنے امیر ہوتے ہیں

مرزا غالب

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

مرزا غالب

تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

مرزا غالب

زندگی کی یہی ریت ہے
ہار کے بعد ہی جیت ہے

مرزا غالب

ندامت کے چراغوں سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
اندھیری رات کے آنسو خدا سے بات کرتے ہیں

مرزا غالب

طوفانوں سے آنکھ ملاو، سیلابوں پر وار کرو
ملاحوں کے چکر چھوڑو، تیر کے دریا پار کرو

مرزا غالب

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مَر جاوں گا
میں تو دریا ہوں ، سمندر میں اُتر جاوں گا

مرزا غالب

ڈوبنا پڑتا ہے اٌبھرنے سے پہلے
غروب ہونے کا مطلب زوال نہیں ہوتا

مرزا غالب

مٹا دے اپنی ہستی کو ، اگر کُچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مِل کر گُلِ گُلزار ہوتا ہے

مرزا غالب

مُقدر جن کے اونچے اور اعلی بخت ہوتے ہیں
زندگی میں اُنہی کے امتحاں بھی سخت ہوتے ہیں

مرزا غالب

زندگی کی بھی یہی ریت ہے
ہار کے بعد ہی جیت ہے

مرزا غالب

اے طائرِ لاہوتی، اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

مرزا غالب

طوفانوں سے آنکھ ملاو، سیلابوں پر وار کرو
ملاحوں کے چکر چھوڑو، تیر کے دریا پار کرو

مرزا غالب

زندگی کی یہی ریت ہے
ہار کے بعد ہی جیت ہے

مرزا غالب

شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم
آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے

مرزا غالب

جو یقین کی راہ میں چل پڑے
انہیں منزلوں نے پناہ دی

مرزا غالب

شاخیں رہیں تو پھول بھی پتے بھی آئیں گے
یہ دن اگر برے ہیں تو اچھے بھی آئیں گے

مرزا غالب

جب چل پڑے ہو سفر کو تو پھر حوصلہ رکھو
صحرا کہیں، کہیں پہ سمندر بھی آئیں گے

مرزا غالب

سفر میں مشکلیں آئیں ، تو ہمت اور بڑھتی ہے
کوئی جب راستہ روکے تو ، جُرات اور بڑھتی ہے

مرزا غالب

دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ، نئے صبح و شام پیدا کر

مرزا غالب

رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں

مرزا غالب

لہروں سے ڈر کر نوکا پار نہیں ہوتی
کوشش کرنے والوں کی ہار نہیں ہوتی

مرزا غالب

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مَر جاوں گا
میں تو دریا ہوں ، سمندر میں اُتر جاوں گا

مرزا غالب

وقت کی گردشوں کا غم نہ کرو
حوصلے مُشکلوں میں پلتے ہیں

مرزا غالب

اُمیدیں یوں نہ توڑو تُم، کہ یہ قانون ہے ربّ کا
سَحر لازم ہے گویا شب میں کِتنی ہی طوالت ہو

مرزا غالب

خواہش سے نہیں گِرتے پھل جھولی میں
وقت کی شاخ کو میرے دوست ہلانا ہو گا کچھ نہیں ہو گا اندھیروں کو بُرا کہنے سے اپنے حِصّے کا دِیا خود ہی جلانا ہو گا

مرزا غالب

منزلیں چاہے کِتنی ہی اونچی کیوں نہ ہو
راستے ہمیشہ پیروں کے نیچے ہوتے ہیں۔

مرزا غالب

جن میں تنہا چلنے کے حوصلے ہوتے ہیں
ایک دِن اُن ہی کے پیچھے قافلے ہوتے ہیں۔

مرزا غالب

منزل تو مِلے گی بھٹک کر ہی سہی
گمراہ تو وہ ہیں جو گھر سے نِکلے ہی نہیں

مرزا غالب

کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں

مرزا غالب

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

مرزا غالب

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

مرزا غالب

کھول آنکھ ، زمیں دیکھ،فلک دیکھ، فِضا دیکھ
مشرق سے نِکلتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ

مرزا غالب

وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی

مرزا غالب

ملے گا منزلِ مقصود کا اُسی کو سُراغ
اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ

مرزا غالب

مٹا دے اپنی ہستی کو ، اگر کُچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مِل کر گُلِ گُلزار ہوتا ہے

مرزا غالب

وقت سے پہلے حادثوں سے لڑا ہوں
میں اپنی عُمر سے کئی سال بڑا ہوں

مرزا غالب

رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں

مرزا غالب

اُمیدیں یوں نہ توڑو تُم، کہ یہ قانون ہے ربّ کا
سَحر لازم ہے گویا شب میں کِتنی ہی طوالت ہو

مرزا غالب

ہم کو مٹاسکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں

مرزا غالب

بے فائدہ الم نہیں، بیکار غم نہیں ​
توفیق دے خدا تو یہ نعمت بھی کم نہیں ​

مرزا غالب

میری زباں پہ شکوہٴ اہل ستم نہیں ​
مجھ کو جگادیا، یہی احسان کم نہیں ​

مرزا غالب

یا رب! ہجوم درد کو دے اور وسعتیں ​
دامن تو کیا، ابھی مِری آنکھیں بھی نم نہیں ​

مرزا غالب

زاہد! کچھ اور ہو نہ ہو میخانہ میں، مگر ​
کیا کم یہ ہے، کہ شکوہٴ دیروحرم نہیں ​

مرزا غالب

مرگِ جگر پہ کیوں تِری آنکھیں ہیں اشک ریز
اک سانحہ سہی، مگر اتنا اہم نہیں ​

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب