جنہیں ہلا نہ سکا سمندر کا طوفاں بھی
ہمارے عزم نے توڑی ہیں وہ چٹانیں بھی

مرزا غالب

‏جب جینا ہر حال میں ہے
تو مسکرا کر جینے میں کیا حرج ہے

مرزا غالب

ہے تبسم ہمارے لَب پہ ابھی
ہم کہاں زندگی سے ہارے ہیں

مرزا غالب

ایک سفر تھا جو گزر گیا
کوئی نشہ تھا جو اتر گیا

مرزا غالب

اپنے سر سے وار کر پھینک دیتا ہوں انھیں
جنہیں گمان ہے کہ انکے بغیر جی نہیں سکتا

مرزا غالب

ندامت کے چراغوں سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
اندھیری رات کے آنسو خدا سے بات کرتے ہیں

مرزا غالب

تم اس دنیا کی باتوں میں مت آنا
یہاں آدمی نے آدمی دَفنائے ہوے ہیں

مرزا غالب

میرے مرنے سے کچھ نہیں ہو گا
میرے ہونے سے کچھ ہوا ہے کیا جون ایلیا

مرزا غالب

مقدّر کی زنجیروں سے بندھے ہم بے بس لوگ
عمر گُزار دیتے ہیں معجزے کے انتظار میں

مرزا غالب

ہوگا اعمال پہ مبنی ہر ایک کا فیصلہ
جنت میں صرف نمازی تھوڑی جائیں گے

مرزا غالب

مفت میں نہیں سیکھا، اُداسی میں مسکرانے کا ہنر ہم نے
بدلے میں زندگی کی ہر خوشی تباہ کی ہے

مرزا غالب

کنارے پر تیرنے والی لاش کو دیکھ کر یہ سمجھ میں آیا
بوجھ جسم کا نہیں سانسوں کا تھا

مرزا غالب

ٹوٹا تو ہوں مگر ابھی بکھرا نہیں فراز
وقت ظالم ہے ہر ایک موڑ پہ ٹھکرائے گا

مرزا غالب

رنگوں سے ڈر نہیں لگتا صاحب
رنگ بدلنے والوں سے لگتا ہے

مرزا غالب

ابھی نہ جاؤ کہ وقت نازک ہے
کہ زندگی لوٹ کر نہیں آتی

مرزا غالب

سنا ہے مرنے والوں کو بہلا دیا جاتا ہے
صاحب ہم تو زندہ ہیں ہم تو مرے بہی نہیں

مرزا غالب

تصویرِ شاہکار وہ لاکھوں میں بک گئی
جس میں بغیر روٹی کے بچہ اداس تھا۔

مرزا غالب

عجیب حال میں پہنچ گئی ہے زندگی
اب نہ تو کوئی اجنبی رہا نہ کوئی اپنا

مرزا غالب

زندگی کا فلسفہ بھی کتنا عجیب ہے
شام کٹی نہیں اور سال گزر گیا

مرزا غالب

سفر سے آ کر مجھے پھر سفر پہ جانا پڑا
یہ ذندگی کسی منزل کا نام تھا ہی نہیں

مرزا غالب

حسرتیں حسرتیں ہی رہیں
اور زندگی اختتام کو پہنچی

مرزا غالب

ہائے آدابِ محبت کے تقاضے ساغر
لب ہلے اور شکایات نے دم توڑ دیا

مرزا غالب

کیوں تمھیں ہوتا نہیں احساس
کہ میرا ہر احساس ھو تم

مرزا غالب

سانُو عِلم اے
اے دُنیا فِلم اے

مرزا غالب

زندگی میں سدا مسکراتے رہو
درد کیسا بھی ہو کوئی غم نہ کرو آیوڈیکس خریدو اور لگاتے رہو

مرزا غالب

کچھ بولوں توہ اتراتے بہت ہو جان من تم مسکراتے بہت ہو
من کرتا ہے تمھیں دعوت پر بلاؤں لیکن جان من تم کھاتے بہت ہو

مرزا غالب

اے خدا ہچکیوں میں کچھ توہ فرق ڈالا ہوتا
اب کیسے پتا کروں کے کونسی والی یاد کر رہی ہے

مرزا غالب

ٹوٹی قلم, اور دوسروں سے جلن
ہمیں اپنی قسمت لکھنے نہیں دیتی۔

مرزا غالب

کام کا آلس, اور پیسے کا لالچ
ہمیں ترقی کرنے نہیں دیتا

مرزا غالب

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری

مرزا غالب

حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ

مرزا غالب

تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

مرزا غالب

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

مرزا غالب

نومید نہ ہو ان سے اے رہبر فرزانہ
کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی

مرزا غالب

کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں

مرزا غالب

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پے دم نکلے

مرزا غالب

ہم نے محبت کے نشے میں آ کر اُسے خدا بنا ڈالا
ہوش تب آیا جب اُس نے کہا کہ خدا کسی ایک کا نہیں ہوتا

مرزا غالب

تیرے وعدے پر جیے تو یہ جان چھوٹ جانا
خوشی سے مَر نا جاتے اگر اعتبار ہوتا

مرزا غالب

جیسے دھاگہ ہو کوئی تسبیح میں
ایسے سانسوں کے درمیاں ہو تم

مرزا غالب

تیری صورت کو دیکھنے والے
سُنا ہے کوئی اور نشا نہیں کرتے

مرزا غالب

اس خوشی کا حساب کیسے ہو
اگر وہ پوچھیں کہ جناب کیسے ہو

مرزا غالب

بھروسہ دُعا وفا خواب من محبت
کتنے ناموں میں سمٹے ہو صرف ایک تم

مرزا غالب

تیرے کاندھے پر سر رکھ کر
غموں سے جیت جاتی ہوں

مرزا غالب

میں جذب کر لوں ساری تھکاوٹیں تیری
توں ایک بار میرے بازووں میں آ تو سہی

مرزا غالب

تم پر نہیں مرتے مرتے ہیں اُن چار پر
ناز پر۔ اندز پر۔ رخسار پر۔ گفتار پر۔

مرزا غالب

تیری زلفوں میں اُلجھا ہوا ہے
وہ محلے کا سب سے سلجھا ہوا لڑکا

مرزا غالب

کیسے کرلیتے ہو، بے رخیاں
دل نہیں دکھتا تمہارا؟

مرزا غالب

زندگی کسی نہ کسی مقام پہ>
ہر کسی کیلئے تلخ ہوتی ہے

مرزا غالب

عشق ہے صاحب
ورنہ کھیلنا ہمیں بھی آتا ہے

مرزا غالب

محبت مکمل ملنے کا نہیں
محبت مکمل ہونے کا نام ہے

مرزا غالب

ہر شخص ناراض ہے
میری باتوں سے میری لہجے سے اور مجھے منانا بھی نہیں آتا

مرزا غالب

محبت کا تو پتہ نہیں مگر
انسان نفرت دل سے کرتا ہے

مرزا غالب

تیری ناراضگی واجب ہے
میں بھی خود سے خوش نہیں ہوں آج کل

مرزا غالب

ایک دن میں مر کر اس کی ساری توجہ
اپنی جانب کھینچ لوں گا

مرزا غالب

یادیں درد، کرب اور
دن میری سال گرہ کا

مرزا غالب

آنا کے مور پہ بکھرے تو ہم سفر نہ ملے
ہم ایک شہر میں رہ کر بھی عمر بھر نہ ملے

مرزا غالب

محبت تھی، مگر یہ بے قراری تو نہ تھی پہلے
الہی آج کیوں یاد آتی ہے بے اختیار اس کی

مرزا غالب

اور مجھ سے نہ الجھئے صاحب
ہاتھ جوڑے ہیں، ہار مانی ہے

مرزا غالب

وہ بہت مختصر رہا مجھ میں
آنکھ کھلنے سے، بند ہونے تک

مرزا غالب

یقین کیجئیے صاحب
یقین نے ہی مارا ہے

مرزا غالب

غائبانہ شریک کر کے تجھے
ایک چسکی بھری ہے چائے کی

مرزا غالب

ذکر کرتے ہوئے چائے کی مٹھاس کا
وہ جانے کیوں میرے لبوں کو دیکھتے ہیں

مرزا غالب

یہ وبا کے دِن گُزر جائیں تو پھر
اِک مُلاقات رکھیں گے چائے پر

مرزا غالب

علاجِ عِشق جو پوچھا میں نے طبیب سے
دھیمے سے لہجے میں بولا–چائے پیا کرو

مرزا غالب

میری شامیں مہکتی ہیں تیری یادوں سے
میری چائے میں بھی شامِل ہے محبّت تیری

مرزا غالب

دو کی بجائے ، چائے بنائی ہے ایک کپ
افسوس آج تو بھی فراموش ہو گیا

مرزا غالب

مقصد تو دِل کی باتیں سُننا سُنانا ہے
چائے تو فقط مُلاقات کا بہانہ ہے

مرزا غالب

آدھی رات اور گہرے سائے
خالی کُرسی ، میں اور چائے

مرزا غالب

اتنا کیوں سکھائے جارہی ہے زندگی
ہم نے کون سا صدیاں گزارنی ہیں یہاں

مرزا غالب

اے زندگی جتنی مرضی تلخیاں بڑھا
وعدہ ہے تجھے ہنس کے گزاریں گے

مرزا غالب

زندگی کا نام تو سُنا ہوگا تم نے
بس اسی سے نفرت ہوگئی ہے

مرزا غالب

زندگی بھی کتنی عجیب ہوتی ہے
کبھی ڈوبتے سورج کی طرح کبھی چمکتے چاند کی طرح

مرزا غالب

اکثر کتابوں کے صفحے پلٹ کر سوچتا ہوں میں
اے کاش پلٹ جائے یوں زندگی تو کیا بات ہے

مرزا غالب

اصولوں کے لیے جنگ کرنا بہت آسان ہے
لیکن اصولوں کے مطابق زندگی گزارنا بہت مشکل ہے

مرزا غالب

روز روتے ہوئے کہتی ہے زندگی مجھ سے
صرف اک شخص کی خاطر مجھے برباد نہ کر

مرزا غالب

بنا روئے تو پیاز بھی نہیں کٹتا
یہ تو پھر زندگی ہے

مرزا غالب

شہر والوں سے حقارت کے سِوا کچھ نہ ملا
زندگی آتجھے لے جاوں کسی گاوں میں

مرزا غالب

دل کو بہلانے کے لئے کچھ تو چاہیے
چاہ نہ سہی، تو چائے ہی سہی

مرزا غالب

ایک پھیکی چائے پینی ہے
تمہاری میٹھی باتوں کے ساتھ

مرزا غالب

میری شامیں مہکتی ہیں تیری یادوں سے
میری چائے میں بھی شامِل ہے محبّت تیری

مرزا غالب

ذکر کرتے ہوئے چائے کی مٹھاس کا وہ جانے کیوں میرے لبوں کو دیکھتے ہیں

مرزا غالب

غائبانہ شریک کر کے تمھیں
ایک چُسکی بھری ہے چائے کی

مرزا غالب

کسی نے پوچھا کہ چائے پینے سے تمہیں کیا ملتا ہے
میں نے کہا دِل کو سکوں، آنکھوں کو ٹھنڈک، اور اسکی یادیں

مرزا غالب

اب محبت ہے فقط چائے سے
پتی تیز ہوگی اور چینی ہوگی کم

مرزا غالب

آنکھیں مجنوں ہوں تو
چائے بھی لیلٰی لگتی ہے

مرزا غالب

ایک چائے کو دو کپوں میں برابر بانٹ کر
اکثر کیا ہے فرض کے تنہا نہیں ہوں میں

مرزا غالب

آدھی رات اور گہرے سائے
خالی کرسی، میں اور چائے

مرزا غالب

تٌو نے جس کپ میں چاۓ پی تھی اِک بار
ہم نے پھر اِس میں کبھی چینی نہیں ڈالی

مرزا غالب

اِک چائے کے کپ نے بخشی ہے تقویت مٌجھ کو
بے وجہ تھکا ہٌوا تھا ناکام حسرتوں سے وجود

مرزا غالب

یہ وبا کے دِن گُزر جائیں تو پھر
اِک مُلاقات رکھیں گے چائے پر

مرزا غالب

اِتنا غرور اچھا نہیں ہے گورے رنگ پے
میں نے دودھ سے زیادہ چائے کے دیوانے دیکھے ہیں

مرزا غالب

میری چائے کا ایک گھونٹ پی کر تو دیکھو
صدیوں چائے پر شاعری کرتے رہو گے

مرزا غالب

بن چائے کے ہر لمحہ عذاب رہتا ہے
دِل اُداس اور دماغ خراب رہتا ہے

مرزا غالب

مجھ سے فقط میری چائے کا کپ نہ مانگ
دِل مانگ جان مانگ خواہ سارا جہان مانگ

مرزا غالب

عشق ہے تو ظاہر کر، بنا کر چائے حاضر کر
ادرک ڈال یا الائچی، کوٹ کر محبت بھی شامل کر

مرزا غالب

جان لیوا تھا اُسکا سانولا رنگ
اور ہم کڑک چائے کے شوقین بھی تھے

مرزا غالب

رہتا ہوں اکیلا بھری دٌنیا میں واصفؔ
لے نام میرا کوئی تو ڈر جاتا ہوں اکثر

مرزا غالب

قاتل بھی یار تھے میرے مقتول بھی عزیز
واصفؔ میں اپنے آپ میں نادم بڑا ہٌوا

مرزا غالب

وہ آنسووں کی زُبان جانتا نہ تھا واصفؔ
مُجھے بیاں کا نہ تھا حوصلہ میں کیا کرتا

مرزا غالب

سب دئیےہم نے خود بُجھا ڈالے
اب ہواٶں سے ڈر نہیں لگتا

مرزا غالب

جو لوگ سمندر میں بھی رہ کر رہے پیاسے
اِک ابر کا ٹکڑا انہیں کیا دے گا دلاسے

مرزا غالب

سب چل رہے تھے یوں تو بڑے اعتماد سے
لیکن کِسی کے پاٶں تلے راستہ نہ تھا

مرزا غالب

برسوں کی مٌسافت میں وہ طے ہو نہیں سکتے
جو فاصلے ہوتے ہیں نِگاہوں میں ذرا سے

مرزا غالب

نہ آیا ہوں نہ میں لایا گیا ہوں
میں حرف کن ہوں فرمایا گیا ہوں

مرزا غالب

مری اپنی نہیں ہے کوئی صورت
ہر اک صورت سے بہلایا گیا ہوں

مرزا غالب

بہت بدلے مرے انداز لیکن
جہاں کھویا وہیں پایا گیا ہوں

مرزا غالب

وجود غیر ہو کیسے گوارا
تری راہوں میں بے سایہ گیا ہوں

مرزا غالب

نہ جانے کون سی منزل ہے واصفؔ
جہاں نہلا کے بلوایا گیا ہوں

مرزا غالب

زندگی سنگِ درِ یار سے آگے نہ بڑھی
عاشقی مطلعِ دیدار سے آگے نہ بڑھی

مرزا غالب

تیرگی کیسوئے خمدار سے آگے نہ بڑھی
روشنی تابشِ رُخسار سے آگے نہ بڑھی

مرزا غالب

دلبری رونقِ بازار سے آگے نہ بڑھی
سادگی حسرتِ اظہار سے آگے نہ بڑھی

مرزا غالب

خود فراموش ترے عرش کو چُھو کر آئے
خواجگی جُبّہ و دستار سے آگے نہ بڑھی

مرزا غالب

بس میں ہوتا تو تری بزم سجاتے ہم بھی
بے بسی سایہِ دیوار سے آگے نہ بڑھی

مرزا غالب

جلوہِ ذات سے آگے تھی فقط ذات ہی ذات
بندگی رقصِ سرِ دار سے آگے نہ بڑھی

مرزا غالب

بے خودی دشت و بیاباں سے ورا ہے واصفؔ
آگہی وادئِ پُر خار سے آگے نہ بڑھی

مرزا غالب

تُو فیصلۂ ترکِ ملاقات میں گُم ہے
بندہ تری دیرینہ عنایات میں گُم ہے

مرزا غالب

ہم منزلِ بے نام کے راہی ہیں ازل سے
تُو تذکرہِ حسنِ مقامات میں گُم ہے

مرزا غالب

شادابئ گلشن کو بیاباں نہ بنا دے
وہ شعلۂ بے تاب، جو برسات میں گُم ہے

مرزا غالب

“ہے گردشِ دوراں کا عناں گیر قلندر”
گُم کردہ روایات، مگر زات میں گُم ہے

مرزا غالب

منزل ہے بہت دور مگر حسنِ تقرب
واصفؒ ترے قدموں کے نشانات میں گُم ہے

مرزا غالب

جذبات زیرِ گردشِ حالات سو گئے
چھائی گھٹا تو رندِ خرابات سو گئے

مرزا غالب

منزل سے دور جاگتی سوچیں تھیں ذہن میں
منزل پہ آ گئے تو خیالات سو گئے

مرزا غالب

تاروں نے ہم کو دیکھ کے شبنم سے یہ کہا
یہ بدنصیب وقتِ مناجات سو گئے

مرزا غالب

کیا دلگداز موسمِ گل کا تھا انتظار
فصلِ بہار آئی تو نغمات سو گئے

مرزا غالب

آنکھوں میں ہم نے کاٹ دی شامِ غمِ فراق
آیا کوئی جو بہرِ ملاقات سو گئے

مرزا غالب

اک خواب کے سوا ہے یہ ہستی تمام خواب
آئی ہے جن کے ذہن میں یہ بات سو گئے

مرزا غالب

آیا جو وقت معرکہِ حق و کفر کا
کیوں صاحبانِ کشف و کرامات سو گئے

مرزا غالب

ہَر ذرّہ ہے اِک وُسعتِ صحرا میرے آگے
ہَر قَطرہ ہے اِک موجۂ دریا میرے آگے

مرزا غالب

اِک نعرہ لگا دُوں کبھی مَستی میں سرِ دار
کعبہ نہ بنے کیسے کلیسا میرے آگے

مرزا غالب

وہ خاک نشیں ہوں کہ میری زَد میں جہاں ہے
بَل کھاتی ہے کیا مَوجِ ثریّا میرے آگے

مرزا غالب

میں ہست میں ہوں نیست کا پیغامِ مجسم
اَنگُشت بَدَنداں ہے مسیحا میرے آگے

مرزا غالب

میں جوش میں آیا تو یہی قُلزمِ ہستی
یُوں سِمٹا کہ جیسے کوئی قطرہ میرے آگے

مرزا غالب

لے آیا ہوں اَفلاک سے مِلّت کا مُقدّر
کیا کیجئے مقدُور کا شکوہ میرے آگے

مرزا غالب

اُستادِ زماں فَخرِ بیاںؐ کی ہے توجّہ
غالبؔ کی زمیں کب ہوئی عَنقا میرے آگے

مرزا غالب

واصِفؔ ہے میرا نام مگر راز ہوں گہرا
ذرّے نے جِگر چِیر کے رکھا میرے آگے

مرزا غالب

ترے سلوک کا غم صبح و شام کیا کرتے
ذرا سی بات پہ جینا حرام کیا کرتے

مرزا غالب

علاج دردِ دل تم سے مسیحا ہو نہیں سکتا
تم اچھا کر نہیں سکتے میں اچھا ہو نہیں سکتا

مرزا غالب

ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

مرزا غالب

یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا؟
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا؟

مرزا غالب

رات آ کر گزر بھی جاتی ہے
اک ہماری سحر نہیں ہوتی

مرزا غالب

عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے

مرزا غالب

امید تو بندھ جاتی تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا

مرزا غالب

زندگی شاید اسی کا نام ہے
دوریاں، مجبوریاں، تنہائیاں

مرزا غالب

اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے

مرزا غالب

چھوڑنے میں نہیں جاتا اسے دروازے تک
لوٹ آتا ہوں کہ اب کون اسے جاتا دیکھے

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب