جنہیں ہلا نہ سکا سمندر کا طوفاں بھی
ہمارے عزم نے توڑی ہیں وہ چٹانیں بھی
جب جینا ہر حال میں ہے
تو مسکرا کر جینے میں کیا حرج ہے
ہے تبسم ہمارے لَب پہ ابھی
ہم کہاں زندگی سے ہارے ہیں
ایک سفر تھا جو گزر گیا
کوئی نشہ تھا جو اتر گیا
اپنے سر سے وار کر پھینک دیتا ہوں انھیں
جنہیں گمان ہے کہ انکے بغیر جی نہیں سکتا
ندامت کے چراغوں سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
اندھیری رات کے آنسو خدا سے بات کرتے ہیں
تم اس دنیا کی باتوں میں مت آنا
یہاں آدمی نے آدمی دَفنائے ہوے ہیں
میرے مرنے سے کچھ نہیں ہو گا
میرے ہونے سے کچھ ہوا ہے کیا جون ایلیا
مقدّر کی زنجیروں سے بندھے ہم بے بس لوگ
عمر گُزار دیتے ہیں معجزے کے انتظار میں
ہوگا اعمال پہ مبنی ہر ایک کا فیصلہ
جنت میں صرف نمازی تھوڑی جائیں گے
مفت میں نہیں سیکھا، اُداسی میں مسکرانے کا ہنر ہم نے
بدلے میں زندگی کی ہر خوشی تباہ کی ہے
کنارے پر تیرنے والی لاش کو دیکھ کر یہ سمجھ میں آیا
بوجھ جسم کا نہیں سانسوں کا تھا
ٹوٹا تو ہوں مگر ابھی بکھرا نہیں فراز
وقت ظالم ہے ہر ایک موڑ پہ ٹھکرائے گا
رنگوں سے ڈر نہیں لگتا صاحب
رنگ بدلنے والوں سے لگتا ہے
ابھی نہ جاؤ کہ وقت نازک ہے
کہ زندگی لوٹ کر نہیں آتی
سنا ہے مرنے والوں کو بہلا دیا جاتا ہے
صاحب ہم تو زندہ ہیں ہم تو مرے بہی نہیں
تصویرِ شاہکار وہ لاکھوں میں بک گئی
جس میں بغیر روٹی کے بچہ اداس تھا۔
عجیب حال میں پہنچ گئی ہے زندگی
اب نہ تو کوئی اجنبی رہا نہ کوئی اپنا
زندگی کا فلسفہ بھی کتنا عجیب ہے
شام کٹی نہیں اور سال گزر گیا
سفر سے آ کر مجھے پھر سفر پہ جانا پڑا
یہ ذندگی کسی منزل کا نام تھا ہی نہیں
حسرتیں حسرتیں ہی رہیں
اور زندگی اختتام کو پہنچی
ہائے آدابِ محبت کے تقاضے ساغر
لب ہلے اور شکایات نے دم توڑ دیا
کیوں تمھیں ہوتا نہیں احساس
کہ میرا ہر احساس ھو تم
سانُو عِلم اے
اے دُنیا فِلم اے
زندگی میں سدا مسکراتے رہو
درد کیسا بھی ہو کوئی غم نہ کرو آیوڈیکس خریدو اور لگاتے رہو
کچھ بولوں توہ اتراتے بہت ہو جان من تم مسکراتے بہت ہو
من کرتا ہے تمھیں دعوت پر بلاؤں لیکن جان من تم کھاتے بہت ہو
اے خدا ہچکیوں میں کچھ توہ فرق ڈالا ہوتا
اب کیسے پتا کروں کے کونسی والی یاد کر رہی ہے
ٹوٹی قلم, اور دوسروں سے جلن
ہمیں اپنی قسمت لکھنے نہیں دیتی۔
کام کا آلس, اور پیسے کا لالچ
ہمیں ترقی کرنے نہیں دیتا
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری
حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
نومید نہ ہو ان سے اے رہبر فرزانہ
کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پے دم نکلے
ہم نے محبت کے نشے میں آ کر اُسے خدا بنا ڈالا
ہوش تب آیا جب اُس نے کہا کہ خدا کسی ایک کا نہیں ہوتا
تیرے وعدے پر جیے تو یہ جان چھوٹ جانا
خوشی سے مَر نا جاتے اگر اعتبار ہوتا
جیسے دھاگہ ہو کوئی تسبیح میں
ایسے سانسوں کے درمیاں ہو تم
تیری صورت کو دیکھنے والے
سُنا ہے کوئی اور نشا نہیں کرتے
اس خوشی کا حساب کیسے ہو
اگر وہ پوچھیں کہ جناب کیسے ہو
بھروسہ دُعا وفا خواب من محبت
کتنے ناموں میں سمٹے ہو صرف ایک تم
تیرے کاندھے پر سر رکھ کر
غموں سے جیت جاتی ہوں
میں جذب کر لوں ساری تھکاوٹیں تیری
توں ایک بار میرے بازووں میں آ تو سہی
تم پر نہیں مرتے مرتے ہیں اُن چار پر
ناز پر۔ اندز پر۔ رخسار پر۔ گفتار پر۔
تیری زلفوں میں اُلجھا ہوا ہے
وہ محلے کا سب سے سلجھا ہوا لڑکا
کیسے کرلیتے ہو، بے رخیاں
دل نہیں دکھتا تمہارا؟
زندگی کسی نہ کسی مقام پہ>
ہر کسی کیلئے تلخ ہوتی ہے
عشق ہے صاحب
ورنہ کھیلنا ہمیں بھی آتا ہے
محبت مکمل ملنے کا نہیں
محبت مکمل ہونے کا نام ہے
ہر شخص ناراض ہے
میری باتوں سے میری لہجے سے اور مجھے منانا بھی نہیں آتا
محبت کا تو پتہ نہیں مگر
انسان نفرت دل سے کرتا ہے
تیری ناراضگی واجب ہے
میں بھی خود سے خوش نہیں ہوں آج کل
ایک دن میں مر کر اس کی ساری توجہ
اپنی جانب کھینچ لوں گا
یادیں درد، کرب اور
دن میری سال گرہ کا
آنا کے مور پہ بکھرے تو ہم سفر نہ ملے
ہم ایک شہر میں رہ کر بھی عمر بھر نہ ملے
محبت تھی، مگر یہ بے قراری تو نہ تھی پہلے
الہی آج کیوں یاد آتی ہے بے اختیار اس کی
اور مجھ سے نہ الجھئے صاحب
ہاتھ جوڑے ہیں، ہار مانی ہے
وہ بہت مختصر رہا مجھ میں
آنکھ کھلنے سے، بند ہونے تک
یقین کیجئیے صاحب
یقین نے ہی مارا ہے
غائبانہ شریک کر کے تجھے
ایک چسکی بھری ہے چائے کی
ذکر کرتے ہوئے چائے کی مٹھاس کا
وہ جانے کیوں میرے لبوں کو دیکھتے ہیں
یہ وبا کے دِن گُزر جائیں تو پھر
اِک مُلاقات رکھیں گے چائے پر
علاجِ عِشق جو پوچھا میں نے طبیب سے
دھیمے سے لہجے میں بولا–چائے پیا کرو
میری شامیں مہکتی ہیں تیری یادوں سے
میری چائے میں بھی شامِل ہے محبّت تیری
دو کی بجائے ، چائے بنائی ہے ایک کپ
افسوس آج تو بھی فراموش ہو گیا
مقصد تو دِل کی باتیں سُننا سُنانا ہے
چائے تو فقط مُلاقات کا بہانہ ہے
آدھی رات اور گہرے سائے
خالی کُرسی ، میں اور چائے
اتنا کیوں سکھائے جارہی ہے زندگی
ہم نے کون سا صدیاں گزارنی ہیں یہاں
اے زندگی جتنی مرضی تلخیاں بڑھا
وعدہ ہے تجھے ہنس کے گزاریں گے
زندگی کا نام تو سُنا ہوگا تم نے
بس اسی سے نفرت ہوگئی ہے
زندگی بھی کتنی عجیب ہوتی ہے
کبھی ڈوبتے سورج کی طرح کبھی چمکتے چاند کی طرح
اکثر کتابوں کے صفحے پلٹ کر سوچتا ہوں میں
اے کاش پلٹ جائے یوں زندگی تو کیا بات ہے
اصولوں کے لیے جنگ کرنا بہت آسان ہے
لیکن اصولوں کے مطابق زندگی گزارنا بہت مشکل ہے
روز روتے ہوئے کہتی ہے زندگی مجھ سے
صرف اک شخص کی خاطر مجھے برباد نہ کر
بنا روئے تو پیاز بھی نہیں کٹتا
یہ تو پھر زندگی ہے
شہر والوں سے حقارت کے سِوا کچھ نہ ملا
زندگی آتجھے لے جاوں کسی گاوں میں
دل کو بہلانے کے لئے کچھ تو چاہیے
چاہ نہ سہی، تو چائے ہی سہی
ایک پھیکی چائے پینی ہے
تمہاری میٹھی باتوں کے ساتھ
میری شامیں مہکتی ہیں تیری یادوں سے
میری چائے میں بھی شامِل ہے محبّت تیری
ذکر کرتے ہوئے چائے کی مٹھاس کا
وہ جانے کیوں میرے لبوں کو دیکھتے ہیں
غائبانہ شریک کر کے تمھیں
ایک چُسکی بھری ہے چائے کی
کسی نے پوچھا کہ چائے پینے سے تمہیں کیا ملتا ہے
میں نے کہا دِل کو سکوں، آنکھوں کو ٹھنڈک، اور اسکی یادیں
اب محبت ہے فقط چائے سے
پتی تیز ہوگی اور چینی ہوگی کم
آنکھیں مجنوں ہوں تو
چائے بھی لیلٰی لگتی ہے
ایک چائے کو دو کپوں میں برابر بانٹ کر
اکثر کیا ہے فرض کے تنہا نہیں ہوں میں
آدھی رات اور گہرے سائے
خالی کرسی، میں اور چائے
تٌو نے جس کپ میں چاۓ پی تھی اِک بار
ہم نے پھر اِس میں کبھی چینی نہیں ڈالی
اِک چائے کے کپ نے بخشی ہے تقویت مٌجھ کو
بے وجہ تھکا ہٌوا تھا ناکام حسرتوں سے وجود
یہ وبا کے دِن گُزر جائیں تو پھر
اِک مُلاقات رکھیں گے چائے پر
اِتنا غرور اچھا نہیں ہے گورے رنگ پے
میں نے دودھ سے زیادہ چائے کے دیوانے دیکھے ہیں
میری چائے کا ایک گھونٹ پی کر تو دیکھو
صدیوں چائے پر شاعری کرتے رہو گے
بن چائے کے ہر لمحہ عذاب رہتا ہے
دِل اُداس اور دماغ خراب رہتا ہے
مجھ سے فقط میری چائے کا کپ نہ مانگ
دِل مانگ جان مانگ خواہ سارا جہان مانگ
عشق ہے تو ظاہر کر، بنا کر چائے حاضر کر
ادرک ڈال یا الائچی، کوٹ کر محبت بھی شامل کر
جان لیوا تھا اُسکا سانولا رنگ
اور ہم کڑک چائے کے شوقین بھی تھے
رہتا ہوں اکیلا بھری دٌنیا میں واصفؔ
لے نام میرا کوئی تو ڈر جاتا ہوں اکثر
قاتل بھی یار تھے میرے مقتول بھی عزیز
واصفؔ میں اپنے آپ میں نادم بڑا ہٌوا
وہ آنسووں کی زُبان جانتا نہ تھا واصفؔ
مُجھے بیاں کا نہ تھا حوصلہ میں کیا کرتا
سب دئیےہم نے خود بُجھا ڈالے
اب ہواٶں سے ڈر نہیں لگتا
جو لوگ سمندر میں بھی رہ کر رہے پیاسے
اِک ابر کا ٹکڑا انہیں کیا دے گا دلاسے
سب چل رہے تھے یوں تو بڑے اعتماد سے
لیکن کِسی کے پاٶں تلے راستہ نہ تھا
برسوں کی مٌسافت میں وہ طے ہو نہیں سکتے
جو فاصلے ہوتے ہیں نِگاہوں میں ذرا سے
نہ آیا ہوں نہ میں لایا گیا ہوں
میں حرف کن ہوں فرمایا گیا ہوں
مری اپنی نہیں ہے کوئی صورت
ہر اک صورت سے بہلایا گیا ہوں
بہت بدلے مرے انداز لیکن
جہاں کھویا وہیں پایا گیا ہوں
وجود غیر ہو کیسے گوارا
تری راہوں میں بے سایہ گیا ہوں
نہ جانے کون سی منزل ہے واصفؔ
جہاں نہلا کے بلوایا گیا ہوں
زندگی سنگِ درِ یار سے آگے نہ بڑھی
عاشقی مطلعِ دیدار سے آگے نہ بڑھی
تیرگی کیسوئے خمدار سے آگے نہ بڑھی
روشنی تابشِ رُخسار سے آگے نہ بڑھی
دلبری رونقِ بازار سے آگے نہ بڑھی
سادگی حسرتِ اظہار سے آگے نہ بڑھی
خود فراموش ترے عرش کو چُھو کر آئے
خواجگی جُبّہ و دستار سے آگے نہ بڑھی
بس میں ہوتا تو تری بزم سجاتے ہم بھی
بے بسی سایہِ دیوار سے آگے نہ بڑھی
جلوہِ ذات سے آگے تھی فقط ذات ہی ذات
بندگی رقصِ سرِ دار سے آگے نہ بڑھی
بے خودی دشت و بیاباں سے ورا ہے واصفؔ
آگہی وادئِ پُر خار سے آگے نہ بڑھی
تُو فیصلۂ ترکِ ملاقات میں گُم ہے
بندہ تری دیرینہ عنایات میں گُم ہے
ہم منزلِ بے نام کے راہی ہیں ازل سے
تُو تذکرہِ حسنِ مقامات میں گُم ہے
شادابئ گلشن کو بیاباں نہ بنا دے
وہ شعلۂ بے تاب، جو برسات میں گُم ہے
“ہے گردشِ دوراں کا عناں گیر قلندر”
گُم کردہ روایات، مگر زات میں گُم ہے
منزل ہے بہت دور مگر حسنِ تقرب
واصفؒ ترے قدموں کے نشانات میں گُم ہے
جذبات زیرِ گردشِ حالات سو گئے
چھائی گھٹا تو رندِ خرابات سو گئے
منزل سے دور جاگتی سوچیں تھیں ذہن میں
منزل پہ آ گئے تو خیالات سو گئے
تاروں نے ہم کو دیکھ کے شبنم سے یہ کہا
یہ بدنصیب وقتِ مناجات سو گئے
کیا دلگداز موسمِ گل کا تھا انتظار
فصلِ بہار آئی تو نغمات سو گئے
آنکھوں میں ہم نے کاٹ دی شامِ غمِ فراق
آیا کوئی جو بہرِ ملاقات سو گئے
اک خواب کے سوا ہے یہ ہستی تمام خواب
آئی ہے جن کے ذہن میں یہ بات سو گئے
آیا جو وقت معرکہِ حق و کفر کا
کیوں صاحبانِ کشف و کرامات سو گئے
ہَر ذرّہ ہے اِک وُسعتِ صحرا میرے آگے
ہَر قَطرہ ہے اِک موجۂ دریا میرے آگے
اِک نعرہ لگا دُوں کبھی مَستی میں سرِ دار
کعبہ نہ بنے کیسے کلیسا میرے آگے
وہ خاک نشیں ہوں کہ میری زَد میں جہاں ہے
بَل کھاتی ہے کیا مَوجِ ثریّا میرے آگے
میں ہست میں ہوں نیست کا پیغامِ مجسم
اَنگُشت بَدَنداں ہے مسیحا میرے آگے
میں جوش میں آیا تو یہی قُلزمِ ہستی
یُوں سِمٹا کہ جیسے کوئی قطرہ میرے آگے
لے آیا ہوں اَفلاک سے مِلّت کا مُقدّر
کیا کیجئے مقدُور کا شکوہ میرے آگے
اُستادِ زماں فَخرِ بیاںؐ کی ہے توجّہ
غالبؔ کی زمیں کب ہوئی عَنقا میرے آگے
واصِفؔ ہے میرا نام مگر راز ہوں گہرا
ذرّے نے جِگر چِیر کے رکھا میرے آگے
ترے سلوک کا غم صبح و شام کیا کرتے
ذرا سی بات پہ جینا حرام کیا کرتے
علاج دردِ دل تم سے مسیحا ہو نہیں سکتا
تم اچھا کر نہیں سکتے میں اچھا ہو نہیں سکتا
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا؟
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا؟
رات آ کر گزر بھی جاتی ہے
اک ہماری سحر نہیں ہوتی
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے
امید تو بندھ جاتی تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا
زندگی شاید اسی کا نام ہے
دوریاں، مجبوریاں، تنہائیاں
اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
چھوڑنے میں نہیں جاتا اسے دروازے تک
لوٹ آتا ہوں کہ اب کون اسے جاتا دیکھے