آخری بار اپنی صفائی دیتا ہوں
میں وہ نہیں جو دکھائی دیتا ہوں

مرزا غالب

احسان یہ رہا تہمت لگانے والوں کا مجھ پر
اُٹھتی اُنگلیوں نے مجھے مشہور کردیا

مرزا غالب

روٹھا ہوا ہے مجھ سے اس بات پر زمانہ
شامل نہیں ہے میری فطرت میں سر جھکانا

مرزا غالب

آپ کو کم بتایا جا رہا ہے>
اچھا خاصا بُرا ہوں میں

مرزا غالب

مجھے کمزور سمجھنے کی غلطی مت کرنا
پیار اور وار وقت آنے پہ کروں گا

مرزا غالب

ایک سُن سکتا ہوں تو چار سُنا بھی سکتا ہوں
احترم کرتا ہوں مگر خوب انا رکھتا ہوں

مرزا غالب

میری عزت پہ بات آئی تو
میں محبّت بھی مار ڈالوں گی

مرزا غالب

تھوڑی تمیز سے بات کرنا ہم سے
بڑے بدتمیز ہیں ہم

مرزا غالب

دل سکون چاہتا ہے
جو تیرے بغیر ممکن نہیں

مرزا غالب

تجھے مناؤں کہ اپنی انا کی بات سنوں
الجھ رہا ہے مرے فیصلوں کا ریشم پھر

مرزا غالب

یہ تمیز کون ہے؟ سب مجھے
اس سے بات کرنے کو کہہ رہے ہیں

مرزا غالب

مسلسل بےرخی سے یہ تعلق ٹوٹ جائے گا
تمہیں پہلے بتاتا ہوں نظر انداز مت کرنا

مرزا غالب

نکلے وہ لوگ میری شخصیت بگاڑنے
کردار جن کے خود مرمت مانگ رہے ہیں

مرزا غالب

خود کو اچھا دکھانے کے لئے
کچھ لوگ میری برائی کرتے ہیں

مرزا غالب

میں یوں تو بھول جاتا ہوں خراشیں تلخ باتوں کی
مگر جو زخم گہرے دیں وہ رویے یاد رکھتا ہوں

مرزا غالب

ہارا کر کوئی جان بھی لے لے تو منظور ہے مجھکو
دھوکا دینے والوں کو میں پھر موقع نہیں دیتا

مرزا غالب

ہم بھی خرید لائے ہے
عشق کا تعویز اب صنم آپ کی خیر نہیں

مرزا غالب

جواب ایسا دو کہ پھر کسی کے دل میں
!سوال نہ آئے

مرزا غالب

وہ جو تہمت لگاتے ہیں مجھ پر
میرے صبر کی مار کھائیں گے

مرزا غالب

عزت کرنے سے عزت ملے گی
ٹُھکراؤ گے تو ٹھکرا دیئے جاؤ گے

مرزا غالب

سن بے کھجور
وقت وقت کی بات ہے آج تیرا ہے کل میرا ہوگا اور جب میرا ہوگا تو سوچ تیرا کیا ہوگا

مرزا غالب

شاخ سے جو گر جائیں ہم وہ پتے نہیں
آندھیوں سے کہہ دو اپنی اوقات میں رہیں

مرزا غالب

سنسکار نے باندھ رکھا ہے
ورنہ جواب دینے میں ہم تمہارے باپ ہیں

مرزا غالب

جائیں آپ کسی اور کو دلاسے دیں
اتنی محنت سے بگاڑا ہے خود کو

مرزا غالب

چھوڑ دیا اب لوگوں کے پیچھے چلنا
جس کو جتنی عزت دی اُس نے اتنا ہی گرا ہوا سمجھا

مرزا غالب

دنیا طعنے دے گی تم کو
دور رہا کرو بگڑے ہوئے لوگ ہیں ہم

مرزا غالب

سوکھے ہوے پیالوں کو ساحل پی پٹخ کر
دریاوّں کو شرمندہ بھی کر جاتے ہیں پیاسے

مرزا غالب

گمان نہ کر اپنے دماغ پر اے دوست
جتنا تیرے پاس ہے اُتنا میرا خراب رہتا ہے

مرزا غالب

لاکھ تلواریں بڑھیں آتی ہوں گردن کی طرف
سر جھکانا نہیں آتا تو جھکائیں کیسے

مرزا غالب

ہم جا رہے ہیں وہاں جہاں دل کی ہو قدر
بیٹھے رہو تم اپنی ادائیں لیے ہوئے

مرزا غالب

ہمکو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں

مرزا غالب

ہم نہ بدلیں گے وقت کی رفتار کے ساتھ
جب بھی ملیں گے انداز پُرانا ہوگا

مرزا غالب

تیری محبت کو کبھی کھیل نہیں سمجھا
ورنہ کھیل تو اتنے کھیلے ہیں کہ کبھی ہارے نہیں

مرزا غالب

علاج یہ ہے کہ مجبور کر دیا جاؤں
ورنہ یوں تو کسی کی نہیں سُنی میں نے

مرزا غالب

جو شدت سے چاہوگے تو ہوگی آرزو پوری
ہم وہ نہیں جو تمہیں خیرات میں مل جائیں

مرزا غالب

نہ عشق نہ کوئی غم
دیکھو کتنے خوش ہیں ہم

مرزا غالب

نہ میں گرا نہ میری امیدوں کے مینار گرے
پر کچھ لوگ مجھے گرانے میں کئی بار گرے

مرزا غالب

چار دن میرے ساتھ کھیلی ہے
زندگی ہی میری سہیلی ہے

مرزا غالب

سانُو عِلم اے
اے دُنیا فِلم اے

مرزا غالب

پتلے گال اور بکھرے بال
یہ ہی ہے آج کل کے لڑکوں کا حال

مرزا غالب

ہزاروں غم ہیں لیکن آنکھ سے ٹپکا نہیں آنسو
ہم اہلِ ظرف ہیں پیتے ہیں چھلکایا نہیں کرتے

مرزا غالب

کوئی ٹوٹ کر چاہے بس اتنی سی تمنا ہے
پھر ریت کی طرح بکھر بھی جاؤں تو کوئی بات نہیں

مرزا غالب

کسی کے روٹھ جانے سے مجھے سجنا نہیں آتا
تیری بے درد دنیا سے مجھے لڑنا نہیں آتا

مرزا غالب

اپنے اندر کو کھا گئی میں
خود میں رہنا کوئی مذاق ہے

مرزا غالب

سخت تنہائی پسند ہوں
آپ مغرور کہہ سکتے ہیں

مرزا غالب

آگ لگانا میری فطرت میں نہیں ہے
میری سادگی سے لوگ جلیں تو میرا کیا قصور

مرزا غالب

میں محبت کرتا ہوں تو ٹوٹ کے کرتا ہوں
یہ کام مجھے ضرورت کے متابق نہیں آتا

مرزا غالب

ٹھہر سکے جو لبوں پہ ہمارے
ہنسی کے سِوا ہے مجال کس کی

مرزا غالب

ایک اسی اصول پر گزاری ہے زندگی میں نے
، جس کو اپنا مانا اُسے کبھی پرکھا نہیں

مرزا غالب

لوگ واقف ہیں میری عادتوں سے
رُتبہ کم ہی سہی لاجواب رکھتا ہوں

مرزا غالب

پیار کے دو میٹھے بول سے خرید لو مجھکو
دولت دیکھائی تو سارے جہاں کی کم پڑے گی

مرزا غالب

چلو آج پھر تھوڑا مُسکرایا جائے
بنا ماچس کے لوگوں کو جلایا جائے

مرزا غالب

جسے نبھا نہ سکوں ایسا وعدہ نہیں کرتا
دعوٰی کوئی اوقات سے زیادہ نہیں کرتا

مرزا غالب

سمبھل کر کیا کرو لوگوں سے بُرائی میری
تُمہارے تمام اپنے میرے ہی مُرید ہیں

مرزا غالب

ایسا نہیں کہ قد اپنے گھٹ گئے
چادر کو اپنی دیکھ کر ہم خود سِمٹ گئے

مرزا غالب

اکثر وہی لوگ اُٹھاتے ہیں ہم پر اُنگلیاں
جن کی ہمیں چُھونے کی اوقات نہیں ہوتی

مرزا غالب

لوگ اگر یونہی کمیاں نَکالتے رہے تو
اک دن صرف خوبیاں ہی رہ جا ئینگی مجھ میں

مرزا غالب

روٹھا ہوا ہے مجھ سے اِس بات پر زمانہ
شامل نہیں ہے میری فطرت میں سر جھکانا

مرزا غالب

نخرے تو میں اپنے بھی نہیں جھیلتا
تو تُو کس کھیت کی مولی ہے

مرزا غالب

بے وقت، بے وجہ، بے حساب مُسکرا دیتا ہوں
آدھے دُشمنوں کو تو یونہی ہرا دیتا ہوں

مرزا غالب

خوٹے سکے جو ابھی ابھی چلے ہیں بازار میں
وہ کمیاں نِکال رہے ہیں میرے کردار میں

مرزا غالب

سب کے اختلاف اپنی جگہ
مگر مجھ پہ جچتا ہے اب مختلف ہونا

مرزا غالب

ابھی شیشہ ہوں سب کی آنکھوں میں چبھتا ہوں
جب آئینہ بنوںگا سارا جہاں دیکھے گا

مرزا غالب

ہم بسا لینگے اک دنیا کسی اور کے ساتھ
تیرے آگے روئیں اب اتنے بھی بغیرت نہیں ہیں ہم

مرزا غالب

محبوب کا گھر ہو یا فرشتوں کی ہو زمین
جو چھوڑ دیا پھر اُسے مڑ کر نہیں دیکھا

مرزا غالب

خواب میں تو خواب پورے ہو نہیں سکتے کبھی
اِس لیے راہِ حقیقت پر چلا کرتا ہوں میں

مرزا غالب

سب کے دلوں میں دھڑکنا ضروری نہیں ہوتا صاحب
لوگوں کی آنکھوں میں کھٹکنے کا بھی ایک مزہ ہے

مرزا غالب

سمندر بہا دینے کا جگر تو رکھتے ہیں لیکن
ہمیں عاشقی کی نمائش کی عادت نہیں ہے دوست

مرزا غالب

میرے بارے میں اپنی سوچ کو تھوڑا بدل کے دیکھ
مجھ سے بھی بُرے ہیں لوگ تو گھر سے نکل کے دیکھ

مرزا غالب

حادثوں کی جد میں ہیں تو کیا مسکرانا چھوڑ دیں
جلجلالوں کے خوف سے کیا گھر بنانا چھوڑ دیں

مرزا غالب

مار ہی ڈالے جو بے موت یہ دُنیا والے
ہم جو زندہ ہیں تو جینے کا ہُنر رکھتے ہیں

مرزا غالب

میری ہمت کو پرکھنے کی گستاخی نہ کرنا
پہلے بھی کئی طوفانوں کا رُک موڑ چکا ہوں

مرزا غالب

چھوڑ دی ہے اب ہم نے وہ فنکاری ورنہ
تجھ جیسے حسین تو ہم قلم سے بنا دیتے تھے

مرزا غالب

گمان نہ کر اپنے دماغ پر اے دوست
جتنا تیرے پاس ہے اُتنا میرا خراب رہتا ہے

مرزا غالب

شور کرتے رہو تم سرخیوں میں آنے کی
ہماری تو خاموشیاں بھی اک اخبار ہیں

مرزا غالب

میرا یہی انداز اس زمانہ کو خالتا ہے، کہ
اتنا پینے کے بعد بھی سیدھا کیسے چلتا ہے

مرزا غالب

ناز کیا إس پہ جو بدلہ زمانے نے تمہیں
ہم ہیں وہ جو زمانے کو بدل دیتے ہیں

مرزا غالب

گمان اتنا نہیں اچھا تُو سُن لے پہلے جانے کے
پلٹنے پر مُکر سکتا ہوں تجھکو جاننے سے بھی

مرزا غالب

میرے لفظوں سے نہ کر میرے کردار کا فیصلہ
تیرا وجود مٹ جایٔگا میری حقیقت ڈھونڈتے ڈھونڈتے

مرزا غالب

جن کی فطرت میں تھا بغاوت کرنا
میں نے ان دلوں پے بھی حکومت کی ہیں

مرزا غالب

ذرا سا ہٹ کے چلتا ہوں زمانے کی روایت سے
کہ جن پہ بوجھ ڈالا ہو وہ کندھے یاد رکھتا ہوں

مرزا غالب

فرق بہت ہے تمہاری اور ہماری تعلیم میں
تم نے اُستادوں سے سیکھا ہے اور ہم نے حالاتوں سے

مرزا غالب

تجھے مناؤں کہ اپنی انا کی بات سنوں
الجھ رہا ہے مرے فیصلوں کا ریشم پھر

مرزا غالب

ہارا کر کوئی جان بھی لے لے تو منظور ہے مجھکو
دھوکا دینے والوں کو میں پھر موقع نہیں دیتا

مرزا غالب

ہمیں شاعر سمجھ کے یوں نظر انداز مت کرییے
نظر ہم پھیر لیں توحُسن کا بازار گِر جایئگا

مرزا غالب

زمین پر آؤ پھر دیکھو ہماری اہمیت کیا ہے
بُلندی سے کبھی ذروں کا اندازہ نہیں ہوتا

مرزا غالب

قافلے میں پیچھے ہوں کچھ بات ہے ورنہ
میری خاک بھی نہ پاتے میرے ساتھ چلنے والے

مرزا غالب

سہی وقت پر کروا دینگے حدوں کا احساس
کچھ تلاب خود کو سُمندر سمجھ بیٹھے ہیں

مرزا غالب

احسان یہ رہا تہمت لگانے والوں کا مجھ پر
اُٹھتی اُنگلیوں نے مجھے مشہور کردیا

مرزا غالب

میرے جینے کا طریقہ تھوڑا الگ ہے
میں اُمید پہ نہیں اپنی ضِد پہ جیتی ہوں

مرزا غالب

دنیا طعنے دے گی تم کو
دور رہا کرو ہم بگڑے ہوئے لوگ ہیں

مرزا غالب

آپ کی بات سے انکار نہیں ہے لیکن
بولتی کیوں نہیں دیوار اگر سنتی ہے

مرزا غالب

میں تمہیں دیکھ کر رہوں زندہ
وجہ بن جاؤ میرے جینے کی

مرزا غالب

کسی کے اندر رہنے کی خواہش میں
ہم اپنے اندر مر جاتے ہیں

مرزا غالب

دشمنو کو سزا دینے کی ایک تہذیب ہے میری
میں ہاتھ نہیں اٹھاتا بس نظروں سے گرا دیتا ہوں

مرزا غالب

مجاز میں ٹھوڈی سختی لازم ہے حضور
لوگ پی جاتے سمندر اگر کھارا نہ ہوتا

مرزا غالب

دل میں موحبّت کا ہونا ضروری ہے
ورنہ یاد تو روز دشمن بھی کرتے ہیں

مرزا غالب

شاخوں سے ٹوٹ جاہیں وو پتے نہیں ہیں
ہم آندھی سے کوئی کہ دے کے اوقات میں رہے

مرزا غالب

زمین پر آؤ پھر دیکھو ہماری اہمیت کیا ہے
بُلندی سے کبھی ذروں کا اندازہ نہیں ہوتا

مرزا غالب

سر نہ کھائیں زمانے والے
ہم نہیں سمجھ میں آنے والے

مرزا غالب

دولت تو وراثت میں مل جاتی ہے
مگر پہچان اپنے دم پہ بنتی ہے

مرزا غالب

ہم کسسی سے ناراض نہی ہوتے صاحب
بس خاص سے عام کر دیتے ہیں

مرزا غالب

سمندر کے طرح ہے ہماری پہچان
’ اوپر سے خاموش اندر سے طوفان

مرزا غالب

کیوں کروں افسوس کہ کوئی ملا نہی
’ افسوس تو وہ کریں جنھیں ہم ملے نہیں”

مرزا غالب

ہمارا مقام دیکھنے کےلئے
تیرا بھی اک مقام ہونا چاہئے

مرزا غالب

ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے ، زمانے سےہم نہیں

مرزا غالب

اپنا لکھا مُجھے معیوب لگے
وقت لکھے گا تعارف میرا

مرزا غالب

خوشی کی بھیک میں کس کس سے مانگتا
اچھا ہُوا کہ غموں سے ہی طبعیت بہل گئی

مرزا غالب

صحیح وقت پر کروا دیں گے حدوں کا احساس
کُچھ تالاب خُود کو سمندر سمجھ بیٹھے ہیں

مرزا غالب

وہ جو تہمت لگاتے ہیں مُجھ پَر
میرے صبر کی مار کھائیں گے

مرزا غالب

اَنّاپرست ہوں میں ٹوٹ جاوں گا لیکن
تمہیں کبھی نہ کہوں گا، کہ یاد آتے ہو

مرزا غالب

ہوا سے کہہ دو کہ خود کو آزما کے دِکھائے
بہت چراغ بجھاتی ہے اِک جلا کے دِکھائے

مرزا غالب

کچھ تو معلوم ہو آخر تیرا معیار کیا ہے
مجھ سے ہر شخص یہاں تیرے سِوا راضی ہے

مرزا غالب

مدت کے بعد اس نے جو کی لطف کی نگاہ
جی خوش تو ہو گیا مگر آنسو نکل پڑے

مرزا غالب

لاکھ چہرہ سہی چاند جیسا
دل کے کالوں سے اللٰہ بچائے

مرزا غالب

گدائے عشق ہوں لیکن انا پرست بھی ہوں
کسی کی شان اگر ہے تو اپنے گھر ہو گی

مرزا غالب

میری انا نے ہی گوارہ نہ کیا ورنہ
میری چند دعاؤں کی مار تھا وہ شخص

مرزا غالب

اب آواز بھی دو گے تو نہیں آئیں گے
ٹوٹنے والے قیامت کی انا رکھتے ہیں

مرزا غالب

کوئی بھی درد ہو ہنس کے اُڑا دیتا ہوں
میری انا میرا مقام گرنے نہیں دیتی

مرزا غالب

دل نہیں کرتاا اب کسی سے دل لگانے کو
بہت آتی ہیں تیرے جیسے کہہ دیتا ہوں لوٹ جانے کو

مرزا غالب

ہماری حیثیت کا اندازہ تم یہ جان کے لگا لو
ہم ان کے ہرگز نہیں ہوتے جو ہر کسی کے ہو جاتے ہیں

مرزا غالب

مرشد بات انا پر گئی تھی
مرشد میں محبتیں منہ پر مار آیا

مرزا غالب

ہرا کر کوئی جان بھی لے لے تو منظور ہے
دھوکہ دینے والوں کو میں پھر موقع نہیں دیتا

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب

مرزا غالب