ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دور ایک سرزمین میں اٹلانٹس نام کا ایک خوبصورت شہر تھا۔ اس شہر کو اپنے وقت کا سب سے ترقی یافتہ اور خوشحال شہر کہا جاتا تھا۔ اس کے لوگ فنون، فن تعمیر اور انجینئرنگ میں ماہر تھے، اور انہوں نے شہر کو قدیم دنیا کا عجوبہ بنا دیا تھا۔ یہ شہر سمندر کے وسط میں ایک جزیرے پر واقع تھا، اور پہاڑوں، جنگلوں اور ندیوں سے گھرا ہوا تھا۔ کہا جاتا تھا کہ یہ شہر اتنا خوبصورت تھا کہ خود دیوتاؤں نے وہاں رہنے کا انتخاب کیا تھا۔
اٹلانٹس کے لوگوں کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے علم میں بہت ترقی یافتہ تھے۔ انہوں نے سورج، ہوا اور سمندر کی طاقت کو استعمال کرنے کے طریقے دریافت کیے تھے، اور توانائی کے ان ذرائع کو اپنے گھروں، اپنی فیکٹریوں اور اپنی مشینوں کو طاقت دینے کے لیے استعمال کیا تھا۔ انہوں نے ایسے بحری جہاز بھی بنائے تھے جو زمین کے سب سے دور کونے تک جا سکتے تھے، اور دوسری قوموں کے ساتھ تجارتی راستے قائم کر چکے تھے۔
لیکن ان کے عظیم علم اور خوشحالی کے باوجود، اٹلانٹس کے لوگوں کو بہت مغرور اور مغرور بھی کہا جاتا تھا۔ انہیں یقین تھا کہ وہ ناقابل تسخیر ہیں، اور کوئی بھی چیز ان کے عظیم شہر کو کبھی تباہ نہیں کر سکتی۔ وہ یہ بھی مانتے تھے کہ وہ دنیا کے اہم ترین لوگ ہیں اور باقی تمام قومیں ان سے کمتر ہیں۔
یہ غرور اور تکبر بالآخر اٹلانٹس کے زوال کا باعث بنا۔ ایک دن جزیرے پر ایک زبردست زلزلہ آیا جس سے شہر سمندر میں ڈوب گیا۔ اٹلانٹس کے لوگ حیران رہ گئے، اور اپنے شہر کو بچانے میں ناکام رہے۔ اٹلانٹس کا ایک زمانے کا عظیم شہر لہروں کے نیچے غائب ہو گیا، اور ہمیشہ کے لیے کھو گیا۔
لیکن شہر خود کھو جانے کے باوجود اٹلانٹس کی کہانی زندہ رہی۔ کئی سالوں کے دوران، بہت سے لوگوں نے کھوئے ہوئے شہر کو تلاش کیا، اس امید میں کہ اس کے وجود کا ثبوت ملے۔ کچھ کا خیال ہے کہ اٹلانٹس ایک حقیقی جگہ تھی، جبکہ دوسروں کا خیال ہے کہ یہ محض ایک افسانوی تھا۔
اٹلانٹس کے کھوئے ہوئے شہر کو گھیرے ہوئے اسرار اور سازش کے باوجود، اس کی میراث زندہ ہے۔ اٹلانٹس کی کہانی نے آرٹ اور ادب کے بے شمار کاموں کو متاثر کیا ہے، اور دنیا بھر کے لوگوں کے تخیلات کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ اور اگرچہ یہ شہر خود کبھی نہیں مل سکتا، اس کی یاد ہر جگہ لوگوں کے دل و دماغ میں زندہ رہے گی۔