آخری بار اپنی صفائی دیتا ہوں
میں وہ نہیں جو دکھائی دیتا ہوں
احسان یہ رہا تہمت لگانے والوں کا مجھ پر
اُٹھتی اُنگلیوں نے مجھے مشہور کردیا
روٹھا ہوا ہے مجھ سے اس بات پر زمانہ
شامل نہیں ہے میری فطرت میں سر جھکانا
آپ کو کم بتایا جا رہا ہے>
اچھا خاصا بُرا ہوں میں
مجھے کمزور سمجھنے کی غلطی مت کرنا
پیار اور وار وقت آنے پہ کروں گا
ایک سُن سکتا ہوں تو چار سُنا بھی سکتا ہوں
احترم کرتا ہوں مگر خوب انا رکھتا ہوں
میری عزت پہ بات آئی تو
میں محبّت بھی مار ڈالوں گی
تھوڑی تمیز سے بات کرنا ہم سے
بڑے بدتمیز ہیں ہم
دل سکون چاہتا ہے
جو تیرے بغیر ممکن نہیں
تجھے مناؤں کہ اپنی انا کی بات سنوں
الجھ رہا ہے مرے فیصلوں کا ریشم پھر
یہ تمیز کون ہے؟ سب مجھے
اس سے بات کرنے کو کہہ رہے ہیں
مسلسل بےرخی سے یہ تعلق ٹوٹ جائے گا
تمہیں پہلے بتاتا ہوں نظر انداز مت کرنا
نکلے وہ لوگ میری شخصیت بگاڑنے
کردار جن کے خود مرمت مانگ رہے ہیں
خود کو اچھا دکھانے کے لئے
کچھ لوگ میری برائی کرتے ہیں
میں یوں تو بھول جاتا ہوں خراشیں تلخ باتوں کی
مگر جو زخم گہرے دیں وہ رویے یاد رکھتا ہوں
ہارا کر کوئی جان بھی لے لے تو منظور ہے مجھکو
دھوکا دینے والوں کو میں پھر موقع نہیں دیتا
ہم بھی خرید لائے ہے
عشق کا تعویز اب صنم آپ کی خیر نہیں
جواب ایسا دو کہ پھر کسی کے دل میں
!سوال نہ آئے
وہ جو تہمت لگاتے ہیں مجھ پر
میرے صبر کی مار کھائیں گے
عزت کرنے سے عزت ملے گی
ٹُھکراؤ گے تو ٹھکرا دیئے جاؤ گے
سن بے کھجور
وقت وقت کی بات ہے آج تیرا ہے کل میرا ہوگا اور جب میرا ہوگا تو سوچ تیرا کیا ہوگا
شاخ سے جو گر جائیں ہم وہ پتے نہیں
آندھیوں سے کہہ دو اپنی اوقات میں رہیں
سنسکار نے باندھ رکھا ہے
ورنہ جواب دینے میں ہم تمہارے باپ ہیں
جائیں آپ کسی اور کو دلاسے دیں
اتنی محنت سے بگاڑا ہے خود کو
چھوڑ دیا اب لوگوں کے پیچھے چلنا
جس کو جتنی عزت دی اُس نے اتنا ہی گرا ہوا سمجھا
دنیا طعنے دے گی تم کو
دور رہا کرو بگڑے ہوئے لوگ ہیں ہم
سوکھے ہوے پیالوں کو ساحل پی پٹخ کر
دریاوّں کو شرمندہ بھی کر جاتے ہیں پیاسے
گمان نہ کر اپنے دماغ پر اے دوست
جتنا تیرے پاس ہے اُتنا میرا خراب رہتا ہے
لاکھ تلواریں بڑھیں آتی ہوں گردن کی طرف
سر جھکانا نہیں آتا تو جھکائیں کیسے
ہم جا رہے ہیں وہاں جہاں دل کی ہو قدر
بیٹھے رہو تم اپنی ادائیں لیے ہوئے
ہمکو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں
ہم نہ بدلیں گے وقت کی رفتار کے ساتھ
جب بھی ملیں گے انداز پُرانا ہوگا
تیری محبت کو کبھی کھیل نہیں سمجھا
ورنہ کھیل تو اتنے کھیلے ہیں کہ کبھی ہارے نہیں
علاج یہ ہے کہ مجبور کر دیا جاؤں
ورنہ یوں تو کسی کی نہیں سُنی میں نے
جو شدت سے چاہوگے تو ہوگی آرزو پوری
ہم وہ نہیں جو تمہیں خیرات میں مل جائیں
نہ عشق نہ کوئی غم
دیکھو کتنے خوش ہیں ہم
نہ میں گرا نہ میری امیدوں کے مینار گرے
پر کچھ لوگ مجھے گرانے میں کئی بار گرے
چار دن میرے ساتھ کھیلی ہے
زندگی ہی میری سہیلی ہے
سانُو عِلم اے
اے دُنیا فِلم اے
پتلے گال اور بکھرے بال
یہ ہی ہے آج کل کے لڑکوں کا حال
ہزاروں غم ہیں لیکن آنکھ سے ٹپکا نہیں آنسو
ہم اہلِ ظرف ہیں پیتے ہیں چھلکایا نہیں کرتے
کوئی ٹوٹ کر چاہے بس اتنی سی تمنا ہے
پھر ریت کی طرح بکھر بھی جاؤں تو کوئی بات نہیں
کسی کے روٹھ جانے سے مجھے سجنا نہیں آتا
تیری بے درد دنیا سے مجھے لڑنا نہیں آتا
اپنے اندر کو کھا گئی میں
خود میں رہنا کوئی مذاق ہے
سخت تنہائی پسند ہوں
آپ مغرور کہہ سکتے ہیں
آگ لگانا میری فطرت میں نہیں ہے
میری سادگی سے لوگ جلیں تو میرا کیا قصور
میں محبت کرتا ہوں تو ٹوٹ کے کرتا ہوں
یہ کام مجھے ضرورت کے متابق نہیں آتا
ٹھہر سکے جو لبوں پہ ہمارے
ہنسی کے سِوا ہے مجال کس کی
ایک اسی اصول پر گزاری ہے زندگی میں نے
، جس کو اپنا مانا اُسے کبھی پرکھا نہیں
لوگ واقف ہیں میری عادتوں سے
رُتبہ کم ہی سہی لاجواب رکھتا ہوں
پیار کے دو میٹھے بول سے خرید لو مجھکو
دولت دیکھائی تو سارے جہاں کی کم پڑے گی
چلو آج پھر تھوڑا مُسکرایا جائے
بنا ماچس کے لوگوں کو جلایا جائے
جسے نبھا نہ سکوں ایسا وعدہ نہیں کرتا
دعوٰی کوئی اوقات سے زیادہ نہیں کرتا
سمبھل کر کیا کرو لوگوں سے بُرائی میری
تُمہارے تمام اپنے میرے ہی مُرید ہیں
ایسا نہیں کہ قد اپنے گھٹ گئے
چادر کو اپنی دیکھ کر ہم خود سِمٹ گئے
اکثر وہی لوگ اُٹھاتے ہیں ہم پر اُنگلیاں
جن کی ہمیں چُھونے کی اوقات نہیں ہوتی
لوگ اگر یونہی کمیاں نَکالتے رہے تو
اک دن صرف خوبیاں ہی رہ جا ئینگی مجھ میں
روٹھا ہوا ہے مجھ سے اِس بات پر زمانہ
شامل نہیں ہے میری فطرت میں سر جھکانا
نخرے تو میں اپنے بھی نہیں جھیلتا
تو تُو کس کھیت کی مولی ہے
بے وقت، بے وجہ، بے حساب مُسکرا دیتا ہوں
آدھے دُشمنوں کو تو یونہی ہرا دیتا ہوں
خوٹے سکے جو ابھی ابھی چلے ہیں بازار میں
وہ کمیاں نِکال رہے ہیں میرے کردار میں
سب کے اختلاف اپنی جگہ
مگر مجھ پہ جچتا ہے اب مختلف ہونا
ابھی شیشہ ہوں سب کی آنکھوں میں چبھتا ہوں
جب آئینہ بنوںگا سارا جہاں دیکھے گا
ہم بسا لینگے اک دنیا کسی اور کے ساتھ
تیرے آگے روئیں اب اتنے بھی بغیرت نہیں ہیں ہم
محبوب کا گھر ہو یا فرشتوں کی ہو زمین
جو چھوڑ دیا پھر اُسے مڑ کر نہیں دیکھا
خواب میں تو خواب پورے ہو نہیں سکتے کبھی
اِس لیے راہِ حقیقت پر چلا کرتا ہوں میں
سب کے دلوں میں دھڑکنا ضروری نہیں ہوتا صاحب
لوگوں کی آنکھوں میں کھٹکنے کا بھی ایک مزہ ہے
سمندر بہا دینے کا جگر تو رکھتے ہیں لیکن
ہمیں عاشقی کی نمائش کی عادت نہیں ہے دوست
میرے بارے میں اپنی سوچ کو تھوڑا بدل کے دیکھ
مجھ سے بھی بُرے ہیں لوگ تو گھر سے نکل کے دیکھ
حادثوں کی جد میں ہیں تو کیا مسکرانا چھوڑ دیں
جلجلالوں کے خوف سے کیا گھر بنانا چھوڑ دیں
مار ہی ڈالے جو بے موت یہ دُنیا والے
ہم جو زندہ ہیں تو جینے کا ہُنر رکھتے ہیں
میری ہمت کو پرکھنے کی گستاخی نہ کرنا
پہلے بھی کئی طوفانوں کا رُک موڑ چکا ہوں
چھوڑ دی ہے اب ہم نے وہ فنکاری ورنہ
تجھ جیسے حسین تو ہم قلم سے بنا دیتے تھے
گمان نہ کر اپنے دماغ پر اے دوست
جتنا تیرے پاس ہے اُتنا میرا خراب رہتا ہے
شور کرتے رہو تم سرخیوں میں آنے کی
ہماری تو خاموشیاں بھی اک اخبار ہیں
میرا یہی انداز اس زمانہ کو خالتا ہے، کہ
اتنا پینے کے بعد بھی سیدھا کیسے چلتا ہے
ناز کیا إس پہ جو بدلہ زمانے نے تمہیں
ہم ہیں وہ جو زمانے کو بدل دیتے ہیں
گمان اتنا نہیں اچھا تُو سُن لے پہلے جانے کے
پلٹنے پر مُکر سکتا ہوں تجھکو جاننے سے بھی
میرے لفظوں سے نہ کر میرے کردار کا فیصلہ
تیرا وجود مٹ جایٔگا میری حقیقت ڈھونڈتے ڈھونڈتے
جن کی فطرت میں تھا بغاوت کرنا
میں نے ان دلوں پے بھی حکومت کی ہیں
ذرا سا ہٹ کے چلتا ہوں زمانے کی روایت سے
کہ جن پہ بوجھ ڈالا ہو وہ کندھے یاد رکھتا ہوں
فرق بہت ہے تمہاری اور ہماری تعلیم میں
تم نے اُستادوں سے سیکھا ہے اور ہم نے حالاتوں سے
تجھے مناؤں کہ اپنی انا کی بات سنوں
الجھ رہا ہے مرے فیصلوں کا ریشم پھر
ہارا کر کوئی جان بھی لے لے تو منظور ہے مجھکو
دھوکا دینے والوں کو میں پھر موقع نہیں دیتا
ہمیں شاعر سمجھ کے یوں نظر انداز مت کرییے
نظر ہم پھیر لیں توحُسن کا بازار گِر جایئگا
زمین پر آؤ پھر دیکھو ہماری اہمیت کیا ہے
بُلندی سے کبھی ذروں کا اندازہ نہیں ہوتا
قافلے میں پیچھے ہوں کچھ بات ہے ورنہ
میری خاک بھی نہ پاتے میرے ساتھ چلنے والے
سہی وقت پر کروا دینگے حدوں کا احساس
کچھ تلاب خود کو سُمندر سمجھ بیٹھے ہیں
احسان یہ رہا تہمت لگانے والوں کا مجھ پر
اُٹھتی اُنگلیوں نے مجھے مشہور کردیا
میرے جینے کا طریقہ تھوڑا الگ ہے
میں اُمید پہ نہیں اپنی ضِد پہ جیتی ہوں
دنیا طعنے دے گی تم کو
دور رہا کرو ہم بگڑے ہوئے لوگ ہیں
آپ کی بات سے انکار نہیں ہے لیکن
بولتی کیوں نہیں دیوار اگر سنتی ہے
میں تمہیں دیکھ کر رہوں زندہ
وجہ بن جاؤ میرے جینے کی
کسی کے اندر رہنے کی خواہش میں
ہم اپنے اندر مر جاتے ہیں
دشمنو کو سزا دینے کی ایک تہذیب ہے میری
میں ہاتھ نہیں اٹھاتا بس نظروں سے گرا دیتا ہوں
مجاز میں ٹھوڈی سختی لازم ہے حضور
لوگ پی جاتے سمندر اگر کھارا نہ ہوتا
دل میں موحبّت کا ہونا ضروری ہے
ورنہ یاد تو روز دشمن بھی کرتے ہیں
شاخوں سے ٹوٹ جاہیں وو پتے نہیں ہیں
ہم آندھی سے کوئی کہ دے کے اوقات میں رہے
زمین پر آؤ پھر دیکھو ہماری اہمیت کیا ہے
بُلندی سے کبھی ذروں کا اندازہ نہیں ہوتا
سر نہ کھائیں زمانے والے
ہم نہیں سمجھ میں آنے والے
دولت تو وراثت میں مل جاتی ہے
مگر پہچان اپنے دم پہ بنتی ہے
ہم کسسی سے ناراض نہی ہوتے صاحب
بس خاص سے عام کر دیتے ہیں
سمندر کے طرح ہے ہماری پہچان
’ اوپر سے خاموش اندر سے طوفان
کیوں کروں افسوس کہ کوئی ملا نہی
’ افسوس تو وہ کریں جنھیں ہم ملے نہیں”
ہمارا مقام دیکھنے کےلئے
تیرا بھی اک مقام ہونا چاہئے
ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے ، زمانے سےہم نہیں
اپنا لکھا مُجھے معیوب لگے
وقت لکھے گا تعارف میرا
خوشی کی بھیک میں کس کس سے مانگتا
اچھا ہُوا کہ غموں سے ہی طبعیت بہل گئی
صحیح وقت پر کروا دیں گے حدوں کا احساس
کُچھ تالاب خُود کو سمندر سمجھ بیٹھے ہیں
وہ جو تہمت لگاتے ہیں مُجھ پَر
میرے صبر کی مار کھائیں گے
اَنّاپرست ہوں میں ٹوٹ جاوں گا لیکن
تمہیں کبھی نہ کہوں گا، کہ یاد آتے ہو
ہوا سے کہہ دو کہ خود کو آزما کے دِکھائے
بہت چراغ بجھاتی ہے اِک جلا کے دِکھائے
کچھ تو معلوم ہو آخر تیرا معیار کیا ہے
مجھ سے ہر شخص یہاں تیرے سِوا راضی ہے
مدت کے بعد اس نے جو کی لطف کی نگاہ
جی خوش تو ہو گیا مگر آنسو نکل پڑے
لاکھ چہرہ سہی چاند جیسا
دل کے کالوں سے اللٰہ بچائے
گدائے عشق ہوں لیکن انا پرست بھی ہوں
کسی کی شان اگر ہے تو اپنے گھر ہو گی
میری انا نے ہی گوارہ نہ کیا ورنہ
میری چند دعاؤں کی مار تھا وہ شخص
اب آواز بھی دو گے تو نہیں آئیں گے
ٹوٹنے والے قیامت کی انا رکھتے ہیں
کوئی بھی درد ہو ہنس کے اُڑا دیتا ہوں
میری انا میرا مقام گرنے نہیں دیتی
دل نہیں کرتاا اب کسی سے دل لگانے کو
بہت آتی ہیں تیرے جیسے کہہ دیتا ہوں لوٹ جانے کو
ہماری حیثیت کا اندازہ تم یہ جان کے لگا لو
ہم ان کے ہرگز نہیں ہوتے جو ہر کسی کے ہو جاتے ہیں
مرشد بات انا پر گئی تھی
مرشد میں محبتیں منہ پر مار آیا
ہرا کر کوئی جان بھی لے لے تو منظور ہے
دھوکہ دینے والوں کو میں پھر موقع نہیں دیتا